انوار اسلام |
س کتاب ک |
خرید و فروخت وغیرہ کے متفرق مسائل زندہ جانور تول کربیچنے کا مفصل ومدلل حکم اگرخریدار اور فروخت کنندہ زندہ جانور کووزن کرکے خریدوفروخت پرراضی ہوں توزندہ جانور کووزن کرکے نقد رقم یاغیرجنس کے ذریعہ خریدنا اور فروخت کرنا دونوں جائز ہیں؛ بشرطیکہ متعین جانورکافی کلو کے حساب سے نرخ کرلیا گیا ہو؛ نیزجانور کا وزن کرنے کے بعد اس کی قیمت بھی متعین کرلی گئی ہو، جس کی صورت یوں ہوگی کہ خریدار کومثلاً ایک بکرے کی ضرورت ہے، تاجر کے پاس جاکر وہ بکروں میں ایک بکرا منتخب کرلیتا ہے اور تاجر اس کوبتادیتا ہے کہ اس بکرے کا نرخ پچاس روپے کلو ہے اور اس بکرے کوخریدار کے سامنے وزن کرکے بتادیتا ہے کہ مثلاً یہ بیس کلو ہے، اب اگرخریدار اس کوقبول کرلے توبیع منعقد ہوجائیگی اور اس طرح کی گئی خریدوفروخت شرعاً جائز ہے۔ مسئلہ مذکورہ میں اس بات کوذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ یہاں دوباتیں الگ الگ ہیں: (۱)ایک یہ کہ جانور کووزن کرکے بیچنا اور خریدنا۔ (۲)دوسری بات یہ کہ جانور کوموزوں قرار دینا اور اس پرموزوانی اشیاء کے فقہی احکامات جاری کرنا، جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ جانور کووزن کرکے بیچنا اور خریدنا، یہ توبلاشبہ جائز ہے اس لیے کہ عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں؛ لیکن دوسری بات کہ جانور کوموزون قرار دینا اور اس پرموزونی اشیاء پرجاری ہونے والے تمام احکام فقہیہ جاری کرنا تویہ دووجہ سے درست نہیں ہے: (۱)پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں جانوروں کا عددی ہونا معلوم ہے اور جن کی حیثیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں منصوص یامعلوم ہو ان کی وہ حیثیت تبدیل نہیں ہوا کرتی ہے۔ (۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ جانور کودیگر اشیاء کی طرح حسب منشا کم یازیادہ کرکے وزن کرنا ناممکن ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح دیگراشیاءِ موزونہ کی جتنی مقدار مطلو ب ہوتی ہے، اتنی مقدار کوبلاتکلف وزن کرکے الگ کیا جاسکتا ہے، مثلاً چینی بیس کلو پندرہ گرام کی ضرورت ہے توبلاتکلف چینی کی یہ مقدار وزن کے ذریعہ الگ کی جاسکتی ہے، بخلاف جانور کے کہ اس میں یہ بات ممکن ہی نہیں، مثلاً اگرکوئی یہ کہے کہ بیس کلو پندرہ گرام کا بکرا چاہیے، کچھ کم یازیادہ نہ ہو توبظاہر یہ محال ہے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ جانور کوموزونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (حاشیہ فتاویٰ عثمانی:۳/۹۹) اصلی کمپنی کے خالی ڈبوں میں دُوسری قسم کا تیل ڈال کرفروخت کرنے کا حکم آج کل یہ عام ہوگیا ہے کہ کمپنی کے ڈبوں میں غیرکمپنی کی چیز ڈال کربیچتے ہیں اور اس کی قیمت کمپنی کے اصل مال سے کم ہوتی ہے تولوگ دھوکہ میں آکر کم قیمت والی چیز کولے لیتے ہیں، اب اگرکوئی دونوں طرح کی چیز رکھے اور وہاں گاہک کوحقیقت واضح کردے کہ یہ ڈبہ کمپنی کا ہے؛ مگراس میں کا مال کمپنی کا نہیں ہے اور یہ ڈبہ اور مال دونوں کمپنی کے ہیں اور دونوں کی قیمت بتادے اب خریدار جولینا چاہے لے لیگا؛ اس طرح دھوکہ بھی ختم ہوجائے گا اور تجارت میں بھی کوئی خرابی نہیں آئیگی؛ اگرحقیقت نہ بتائے توپھر یہ دھوکہ ہے جودرست نہیں۔ (مفہوم فتاویٰ عثمانی:۳/۱۰۲) ہبہ مکمل کب ہوتا ہے؟ ہبہ کے تام اور مکمل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس شخص کوہبہ کیا گیا وہ ہبہ شدہ چیز پرقبضہ بھی کرلے، صرف زبانی کہہ دینا یانام پرلکھ دینا کافی نہیں اور قبضہ کے جوبھی قرائن ہوں وہ شئی موہوب اور ماحول کے اعتبار سے معتبر ہونگے۔ (فتاویٰ عثمانی۔ محمودیہ:۱۶/۷۰۔ احسن الفتاویٰ:۷/۲۵۳) کتے کی تجارت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کتا، خنزیر کی طرح نجس العین ہے، اس کی بیع ناجائز ہے؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نجس العین ہونے کی کوئی دلیل نہیں، شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے، کتے کے ذریعہ شکار کی اجازت قرآنِ کریم میں ہے: وَمَاعَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ۔ (المائدۃ:۴) نیز کھیت اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کی اجازت حدیث شریف میں مذکور ہے، کتا پالنا اور اس سے نفع اُٹھانا اور اس کوتعلیم دینا اور اس کے ذریعہ حاصل شدہ شکار کھانا نصوصِ قرآن وحدیث سے ثابت ہے توپھرا س کی بیع کا مسئلہ خود بخود ثابت ہوجاتا ہے اور کتب فقہ ردالمحتار اور البحرالرائق وغیرہ میں اس کی بیع کودرست لکھا ہے؛ البتہ محض شوق کے بناپر بلاضرورت ِحفاظت وشکار وغیرہ کتا پالنا منع ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۲۹) حرام جانوروں کی بیع بندر، بلی، چوہا، مینڈک، گوہ، سانپ، کیکڑا وغیرہ حرام جانوروں کا کھانا، احناف کے نزدیک جائز نہیں؛ اگریہ چیزیں کسی ضرورت میں مثلاً دوا کے طور پرخارجی استعمال میں مفید ہوں یاان کی کھال، ہڈی وغیرہ کارآمد ہوں توان کی خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۳۲) خنزیر کی بیع خنزیر یااس کے کسی بھی عضو کوبیچنا اور خریدنا جائز نہیں؛ اسی طرح اس کے بالوں سے بنے ہوئے برش وغیرہ کی بیع وشرا بھی جائز نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۶۸) ناموں کا رجسٹریشن ناموں کے رجسٹریشن کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے نام کو قانوناً محفوظ کرلیتا ہے، اب دوسروں کے لیے اس نام سے فائدہ اُٹھانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اس کواصطلاح میں گڈول (Goodwill) کہا جاتا ہے، اس طرح حق محفوظ کرنا درست ہوگا؛ کیونکہ اس سے اپنے مفادات کا تحفظ کیاجاسکتا ہے، عوام کودھوکہ دہی سے بچایا جاسکتا ہے کہ اگرایسا نہ ہوتودوسرے لوگ اس نام کا استحصال کرکے اس کونقصان پہنچاسکتے ہیں اور عوام کودھوکہ بھی دے سکتے ہیں کہ لوگ جس کمپنی کی مصنوعات کوپسند کرتے ہوں اس کا نام لے کرنقلی اور اس سے کمترمال ان کودیا جائے؛ چونکہ اس سے تجارتی منفعت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہوگی۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۱) چٹ فنڈ (Chitfund) اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک خاص رقم متعین ہوتی ہے، چند افراد اس کے ممبر بنتے ہیں، وہ مقررہ تناسب کے مطابق ہرماہ رقم ادا کرتے ہیں اور مجموعی رقم ہرماہ قرعہ اندازی یاباہمی اتفاق رائے سے کسی ایک کودے دی جاتی ہے، مثلاً دوہزار کی چٹھی ہو، دس آدمی شریک ہوں تودس ماہ تک ہرشخص دوسوروپئے جمع کرے گا اور ہرماہ کسی ایک کویکمشت یہ رقم مل جایا کرے گی، یہ صورت مباح ہے، اس لیے کہ اس کے نادرست ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جوشخص مدت کی تکمیل سے پہلے چھٹی کی رقم حاصل کرتا ہے اس کی حیثیت مقروض کی ہے اور دوسرے ارکان کی قرض دہندہ کی، قرض دینے والا اس کوایک مدت کی مہلت دیتا ہے، اس طرح کہ اس پرکوئی نفع حاصل نہیں کرتا، یہ نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ انسانی ہمدردی اور اسلامی اخلاق کا تقاضا بھی ہے؛ لیکن آج کل چٹ فنڈ کی بعض ایسی صورتیں بھی چل پڑی ہیں جن میں ارکان میں سے کوئی جلد رقم حاصل کرنے کی غرض سے خسارہ برداشت کرلیتا ہے اور چٹھی کی متعینہ رقم سے کم لے لیتا ہے، اس طرح اس کے حصہ کی جورقم بچ رہتی ہے وہ کمیشن کے طور پرتمام شرکاء میں تقسیم ہوجاتی ہے، یہ صورت ناجائز اور سود میں داخل ہے، اس لیے کہ کمیشن کی صورت میں قرض دینے والوں نے اپنے قرض پرنفع اٹھایا اور قرض دے کرمقروض سے فائدہ اُٹھانا ناجائز ہے اور ربوٰ میں شامل ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۱) روپیہ بھنانے میں بٹہ لے لینا روپیہ بھنانے میں دونوں فریق کی طرف سے رقم ہوتی ہے؛ البتہ ایک شخص بڑی رقم کا سکہ یانوٹ دیتا ہے اور دوسرا اسی قسم کے چھوٹے سکے یانوٹ؛ یہاں نوٹ کا کاغذ یاسکہ کا وہ معدنی ٹکڑا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کی قانونی قدروقیمت اور حیثیت مقصود ہوتی ہے، اس لیے فقہ کی اصطلاح میں یہ ثمن کی بیع، ثمن سے ہوئی جس کوبیع صرف کہا جاتا ہے، بیع صرف میں اصول یہ ہے کہ کسی فریق کی طرف سے کمی بیشی نہیں ہوسکتی؛ اگر ایک کی طرف سے زیادہ اور دوسرے کی طرف سے کم ہوتو سود اور ربوٰ پیدا ہوجائے گا جوحرام ہے؛ لہٰذا روپئے بھناتے ہوئے اس میں سے کچھ بٹہ کاٹ لینا قطعا جائز نہیں ہے اور سود میں داخل ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۲) بیعانہ کی رقم کا حکم خریدوفروخت کا معاملہ طے ہونے کے بعد بطور سندووثیقہ کے خریدار بیچنے والے کومتعینہ قیمت کا ایک حصہ دے دیتا ہے، جسے عرف میں بیعانہ کہا جاتا ہے، فقہ کی اصطلاحی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مشتری کی جانب سے ثمن کے بعض حصہ پرقبضہ دلانا ہے، اس میں کچھ حرج نہیں؛ لیکن اس کی مروجہ صورت کہ اگربعد کوخریدار نے نہ لیا توا سکی یہ رقم سوخت اور کالعدم ہوجائے، درست نہیں ہے، حدیث میں اس کوبیع عربان کہا گیا ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۴) قیمت بڑھانے کے لئے چیزوں کی ذخیرہ اندوزی ذخیرہ اندوزی کوعربی میں احتکار کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب التِّجَارَاتِ،بَاب الْحُكْرَةِ وَالْجَلْبِ،حدیث نمبر:۲۱۴۴، شاملہ، موقع الإسلام۔) ترجمہ: ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ چنانچہ خلفاءِراشدین رضی اللہ عنہ اس پرخاص نظر رکھتےتھے کہ لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے بازار کوگراں نہ کریں، سیدنا عمررضی اللہ عنہ بسااوقات بازار میں اس کی نگرانی کیا کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مقام سے گزرے اور ایک ذخیرہ اندوز تاجر کا مال دیکھا تواسے نذر آتش کرادیا، فقہاء نے بھی اسے مکروہ بلکہ حرام قرار دیا ہے؛ اس لیے اس کی وجہ سے بازار گراں ہوتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ضروریاتِ زندگی کا حصول دشوار ہوجاتا ہے؛ اکثر فقہاء کے یہاں یہ ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیاء اور حیوانات کے چارے میں ممنوع ہے، غیرمعمولی حالات میں امام مالک اور امام احمد کے نزدیک تمام ہی اشیاء ضروریہ میں احتکار حرام ہے اور یہی رائے امام ابویوسف کی ہے؛ غالباً یہ رائے زیادہ قرین صواب ہے؛ اس ذخیرہ اندوزی کی مدت چالیس دن متعین کی گئی ہے، یعنی چالیس دنوں تک مال کا روک رکھنا تاکہ گراں فروشی کا موقع فراہم ہوسکے، احتکار ہے اور ممنوع ہے؛ یہاں تک کہ فقہاء نے حکومت اور انتظامیہ کواس بات کا حق دار گردانا ہے کہ وہ ضروری سمجھتے توبالجبر ایسا مال نکال کرفروخت کرادے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۶۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۲۳۴) تحریر اور فون کے ذریعہ خریدوفروخت خرید وفروخت جس طرح زبان کے ذریعہ ہوسکتی ہے اسی طرح بوقت ضرورت مراسلت اور خط وکتابت کے ذریعہ بھی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ بیچی جانے والی چیز اور اس کی قیمت تحریر کے ذریعہ مناسب طور پرمتعین کردی جائے اور معاملہ میں ایسا ابہام باقی نہ رہے کہ آئندہ نزاع کا اندیشہ رہ جائے؛ البتہ ضروری ہے کہ اس صورت میں خریدی اور بیچی جانے والی چیز سونے چاندی کے قبیل سے نہ ہو یادونوں کی جنس ایک نہ ہو کہ ہم جنس چیزوں کی خرید وفروخت میں سامان اور قیمت پرایک ہی مجلس میں قبضہ ہوجانا ضروری ہے؛ جس طرح تحریر کے ذریعہ خرید وفروخت درست ہے اسی طرح ٹیلی فون کا حکم بھی ہوگا، اس لیے کہ تحریر اور ٹیلی فون دونوں میں قریبی مماثلت اور یکسانیت پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اسی طرح فیکس کے ذریعہ بھی خرید وفروخت کا معاملہ جائز ہوگا فی زمانہ فون، فیکس اور مراسلت کے ذریعہ بیرون ملک اور اندرونِ ملک ایک شہر سے دوسرے شہر جوخریدوفروخت کی جاتی ہے وہ جائز ودرست ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۲) نمک لگائےہوئے چمڑے کی خرید وفروخت بحمداللہ چمڑے کی تجارت میں آج بھی مسلمانوں کا بہتر تناسب ہے، چمڑا اگرایسے جانور سے حاصل کیا گیا ہوجس کوشرعی طور پرذبح کیا تھا تب توکوئی قباحت نہیں ایسے چمڑے پاک اور قابل خریدوفروخت ہیں؛ لیکن اگرمردار کے چمڑے ہوں توگوشت کی طرح یہ چمڑے بھی ناپاک ہیں اور ان کی خرید وفروخت جائز نہیں، مسلمان تاجرانِ چرم کے لیے یہ پہلو ہندوستان کے ماحول میں خاصا دشوار ہے؛ کیونکہ ایک کثیر تعداد مشرکین کے ذبیحوں سے حاصل ہونے والے چمڑوں کی ہوتی ہے اس لیے مسلمان تاجرانِ چرم کو چاہیے کہ ایسے چمڑوں کواولاً ان کے مالک سے کچھ اُجرت لے کر نمک لگادیں اور پھرانھیں خرید کرلیں؛کیونکہ مردار کے چمڑے بھی دباغت سے پاک ہوجاتے ہیں اور دباغت کے لیے نمک کا لگانا کافی ہے، دارِقطنی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا هِىَ دُبِغَتْ تُرَابًا كَانَ أَوْرَمَادًا أَوْمِلْحًا أَوْمَاكَانَ بَعْدَ أَنْ تُرِيدَ صَلاَحَهُ۔ (سنن دارِقطنی، الطهارة،باب كُلِّ طَعَامٍ وَقَعَتْ فِيهِ دَابَّةٌ لَيْسَ لَهَا دَمٌ،حدیث نمبر:۱۲۹، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية) ترجمہ: مردہ جانوروں کے ایسے چمڑوں سے فائدہ اُٹھاؤ جن کومٹی، راکھ یانمک یاکسی اور شئی سے دباغت دے دی جائے؛ بشرطیکہ اس سے اس کے باقی رہنے کی صلاحیت بڑھ جائے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۳) صرف نمونہ دکھا کرخریدوفروخت کارخانوں میں جواشیاء پائی جاتی ہیں وہ چونکہ مشین یابنے ہوئے فریم پربنتی ہیں اس لیے ان کی مصنوعات کوفروخت کرتے ہوئے نمونہ دکھانے پراکتفا کردیا جاتا ہے اور خریدار اسی کودیکھ کرسامان کا آرڈر دیتا ہے، فقہاء نے خریدارکو اگراس نے سامان نہ دیکھا تھا توسامان دیکھنے کے بعد اس معاملہ کے رد کردینے کا اختیار دیا ہے، جس کوفقہ کی اصطلاح میں خیارِ رویت کہا جاتا ہے، موجودہ حالات میں سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مصنوعات کودیکھنے کے بعد جواسی نمونہ پربنی ہوئی ہوں خریدار کے لیے اس معاملہ سے دستبردار ہوجانے کا اختیار حاصل ہوگا؟ اگرواقعی خریدار کویہ اختیار دیا جائے تومال تیار کرنے والے کوخاصی دقت اور نقصان کا سامنا ہوگا؛ فقہاء کے یہاں اس سلسلہ میں یہ صراحت ملتی ہے کہ نمونہ کودیکھ لینا پورے مال کودیکھ لینے کے درجہ میں ہے اور خریدار کے لیے اس سے دستبردار ہونے کی گنجائش نہیں؛ لہٰذا اگرنمونہ کے مطابق مال ہو توخریدار اس کورد نہیں کرسکتا اور اگر سامان نمونہ سے کمتر درجہ کا ہے توعیب کی بناء پرواپس کرسکتا ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۶) گیارنٹی کے ساتھ فروخت اپنی مصنوعات کوفروغ دینے اور گاہکوں کی ترغیب کے لیے آج کل یہ صورت مروج ہے کہ خریدار کوایک مدت تک سامان کی صلاح ومرمت کا تیقن دیا جاتا ہے، یہ مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ شریعت نے خریدوفروخت میں کسی اضافی شرط کوجائز قرار نہیں دیا ہے؛ اسی بناء پرفقہاء نے ایسی شرطوں کی وجہ سے خریدوفروحت کے معاملہ کوفاسد قرار دیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کی گیارنٹی کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز قرار پائے؛ لیکن فقہاء کے نزدیک شریعت کی اس ممانعت کا منشاء امکانی نزاع کا دروازہ بند کرنا ہے اور جوشرطیں معروف ومروج ہوجاتی ہیں وہ نزاع کا باعث نہیں بنتی ہیں؛ لہٰذا ایسی شرطوں کوجائز اور قابل عمل قرار دیا گیا ہے؛ اس لیے مصنوعات کے ساتھ گیارنٹی دینا اور اس سے فائدہ اُٹھانا دونوں ہی جائز ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۷) ریشم اور شہد کے کیڑوں کی خرید وفروخت کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض بھی اس زمانہ میں متاع خریدوفروخت بن گئے ہیں، ان کی پرورش بھی کی جاتی ہے اور ان کے ذریعہ ریشم، شہد اور بعض ادویہ حاصل کی جاتی ہیں، ریشم کے کیڑے، شہد کی مکھیاں اور سانپ اس سلسلہ میں خصوصی طور پرقابل ذکر ہیں، ابتداءً فقہاء نے ان کی خریدوفروخت کومنع کیا تھا کہ بہ ظاہر یہ نفع آور نہ تھے اور جن اشیاء میں نفع پہنچانے کی صلاحیت نہ ہو، وہ نہ مال ہیں اور نہ اُن کی خریدوفروخت کا کوئی فائدہ ہے؛ لیکن جوں جوں اس طرح کی اشیاء قابل انتفاع ہونے لگیں اور اُن سے معاشی مفاد متعلق ہوتا گیا، فقہاء نے اُن کی خریدوفروخت کی بھی اجازت دے دی؛ اس لیے فی زمانہ جن کارآمد حشرات کی خرید وفروخت مروج ہوجائے، ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۸) فضلہ کی خریدوفروخت موجودہ زمانہ میں کھاد کے لیے انسانی اور حیوانی فضلہ کا استعمال کیا جاتا ہے؛ بلکہ یہ طریقہ زمانہ قدیم ہی سے مروج ہے؛ اسی بناء پراب اس کی خریدوفروخت بھی ہونے لگی ہے؛ چونکہ اب ان فضلات سے گیس بھی پیدا کی جارہی ہے، اس لیے توقع ہے کہ اس کی تجارتی اہمیت میں بھی اضافہ ہوجائے گا؛ ہرچند کہ اصولی طور پرشریعت ناپاک اشیاء کومال تصور نہیں کرتی، اس لیے اس کی خریدوفروخت کوبھی منع کرتی ہے؛ لیکن فقہاء کی تصریحات کوسامنے رکھا جائے توصاف اندازہ ہوتا ہے کہ ناپاک اشیاء کی خریدوفروخت کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا استعمال ممکن نہیں؛ اگراس کے استعمال کی صورت نکل آئے توپھراس کا استعمال بھی درست ہوگا اور اس کی خریدوفروخت بھی درست ہوگی۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۸۹۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۶۳)