انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** معاہدہ صلح کا رد عمل اس معاہدہ کی چوتھی شرط صحابہ کرام کو سخت ناگوار اورگراں معلوم ہوتی تھی،اتفاق سے ابھی عہد نامہ لکھا ہی جارہا تھا کہ خود سہیل کا بیٹا ابو جندل ؓ جو مسلمان ہوگیا تھا اور اس جُرم میں پابندِ سلاسل کردیا گیا تھا، کسی طرح قید سے نکل کر اور بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا،حضرت ابو جندلؓ کو کفار نے جرمِ اسلام کے سبب سخت سخت جسمانی ایذائیں دی تھیں،اُن کے جسم پر زخموں کے نشان اورتازہ زخم موجود تھے،انہوں نے وہ زخم دکھائے اورفریاد کی کہ مجھے ضروراپنے ساتھ مدینے لے چلئے ،سہیل نے کہا کہ عہد نامہ کی شرط کے موافق ابو جندلؓ ہم کو واپس ملنا چاہیئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کو سمجھایا مگر وہ راضی نہ ہوا،بالآخر ابو جندلؓ سہیل کے سپرد کردیئے گئے،سہیل وہیں سے ابو جندل کو مارتا ہوا مکہ کی طرف لے چلا، اس نظارہ کو دیکھ کر حضرت عمر بیتاب ہوگئے،فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ :کیا آپ نبی برحق نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاریب نبی برحق ہوں،حضرت عمرؓ نے کہا:کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک تم مسلمان ہو،حضرت عمرؓ نے پھر کہا:کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ضرور مشرک ہیں،حضرت عمرؓ نے کہا:پھر ہم دین کے معاملہ میں ایسی ذلت کیوں گوارا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کا رسول ہوں اس کے حکم کی مخالفت اوربد عہدی نہیں کرسکتا، وہ مجھے ہر گز ذلیل نہ کرےگا، اس کے بعد جب حضرت عمرؓ کا غصہ فرو ہوا تو وہ اپنی اس جرأت وگستاخی پر بہت ہی پشیمان ہوئے،زندگی بھر توبہ واستغفار کرتے اورغلام آزاد کرتے رہے۔