انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو بکر کی امامت نماز عشاء کے وقت دریافت فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا : نہیں آپﷺ کا انتظار ہے، یہ سن کر غسل فرمایا ، باہر نکل کھڑے ہوئے تو غش آگیا، افاقہ ہوا تو پھر نماز کے بارے میں دریافت فرمایا، کھڑے ہو ئے تو پھر غشی طاری ہوگئی، فرمایا : ابو بکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عائشہؓ نے کہا … وہ بڑے نرم دل ہیں آپﷺ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکیں گے، روئیں گے اور لوگ کچھ سن نہ سکیں گے، بہتر ہے کہ آپﷺ عمرؓ کو حکم دیں، آپﷺ نے وہی حکم دُہرایا، حضرت عائشہؓ نے دوبارہ درخواست کی او ر حضرت حفصہؓ سے بھی کہلوایا، صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میر ے دل میں یہ بات آئی تھی کہ آپﷺ کے بعد لوگ اس شخص سے محبت نہیں کریں گے جو آپﷺ کی جگہ کھڑا ہوگا ؛بلکہ اسے منحوس سمجھیں گے، آپﷺ نے پھر وہی حکم دہرایا اور فرمایا: " تم یوسف کی ساتھ والیاں ہو " ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کا حکم آکر سنایا، حضرت ابو بکرؓنے اپنا حق حضرت عمرؓ کو منتقل کیا، دوسری روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ بن ربیعہ کو حکم دیا کہ باہر لوگوں سے کہہ دیں کہ نماز ادا کریں، وہ باہر نکلے تو حضرت عمرؓسامنے تھے، ان سے کہاکہ آپ نماز پڑھا دیں، روضتہ الاحباب کی روایت کی بموجب حضرت عمرؓ نے نماز شروع کر دی، حضور ﷺ نے پوچھا … کیا یہ عمرؓ کی آواز ہے ؟ جواب ملا : جی ہاں : ارشادفرمایا: اللہ اور مومنین اس کو پسند نہیں کریں گے، پھر سرِ مبارک کھڑکی سے باہر نکالا اور فرمایا! نہیں ، نہیں ابو بکرؓ کو چاہیے کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عمرؓ مُصلّٰی سے پیچھے ہٹ گئے اور حضرت ابو بکرؓ نے پہلی نماز کی امامت فرمائی، دوسرے روز مرض میں کچھ افاقہ ہوا تو ظہر کے وقت جب کہ حضرت ابو بکرؓ نے نماز شروع کر دی تھی آپﷺ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے پاؤں گھسیٹتے مُصلّٰی تک پہنچے اور حضرت ابو بکرؓ کے بائیں پہلو میں بیٹھ گئے، حضرت ابو بکرؓ آنحضرتﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور باقی لوگ حضرت ابو بکرؓ کی، حضرت ابو بکرؓ بلند آواز سے تکبیر کہہ رہے تھے تا کہ لوگ سن لیں ، اس کے بعد حضرت ابو بکر ہی نماز پڑھاتے رہے اور آپﷺ کی وفات سے پہلے (۱۷) نمازیں پڑھائیں، کتاب " اصح السّیر" کی بموجب (۲۱) نمازیں پڑھائیں، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز ادا نہیں کی بجز ایک بار پوری نماز حضرت ابو بکرؓ کی اقتدا میں اور ایک دفعہ سفر میں ایک رکعت حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے پیچھے ،حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پیچھے ایک رکعت فوت شدہ ادا کرنے کے بعد فرمایا :کسی نبی نے ایسا نہیں کیا ہے کہ اس نے اپنی امت کے ایک صالح فرد کے پیچھے نماز اداکی ہو۔ ایک روز حضرت علیؓ حجرہ سے باہر آئے تو لوگوں نے حضور ﷺ کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ بڑا افاقہ ہے، اتنے میں حضرت عباسؓ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا! اللہ کی قسم : رسول اللہ ﷺ عنقریب اس مرض میں وفات پا جائیں گے اور تم سب دوسروں کے ماتحت ہو جاؤ گے، میں بنو عبدالمطلب کے چہروں سے ان کی موت پہچان لیتا ہوں، چلو ہم آپﷺ سے دریافت کریں کہ خلافت کس کو ملے گی، حضرت علیؓ نے جواب دیا… اگر ہم نے سوال کیا اور آپﷺ نے انکار کیا تو آپﷺ کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت نہ دیں گے، اللہ کی قسم ! میں سوال نہیں کروں گا، مرض کا سلسلہ جاری تھا، اتوار کو مرض میں شدت ہو گئی، حضور ﷺ کی علالت کے باعث حضرت اسامہ ؓ کا لشکر مقام جرف ہی میں ٹھہرا رہا، حضرت اسامہؓ آئے اورجھک کرپیشانی مبارک کو بوسہ دیا، آپﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف بلند کئے اور پھر اسامہؓ پر رکھ دئیے، ایک دن قبل اپنے تمام غلامو ں کو آزاد فرمایا، ان کی تعداد چالیس بتائی جاتی ہے ، کچھ دینار نقد موجود تھے، انہیں صدقہ فرمانے کا حکم دیا، اپنے تمام اسلحہ جات مسلمانوں کو ہبہ فرمائے ، حضور ﷺ کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس(۳۰۰) صاع جو کے عوض رہن تھی، یہ حضور ﷺ کی حیات طیبہ کی آخری شب تھی، گھر کے چراغ میں تیل تک نہ تھا جو پڑوسن سے عاریتاً منگوایا گیا ، پیر کے دن آپﷺ نے حجرہ مبارک کاپردہ اٹھایا تو دیکھا کہ صحابہ ؓ کرام صف باندھے حضرت ابو بکرؓ کے پیچھے فجر کی نماز پڑھ رہے ہیں، صحابہ کرام کی آپ پر نظر پڑی، یوں محسوس کیا جیسے قرآن کا ایک ورق سامنے کھلا ہو ، آپﷺ نے تبسم فرمایا، حضرت ابو بکرؓ پیچھے ہٹے کہ صف میں مل جائیں ، آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کریں، اس کے بعد حجرہ کا پردہ گرادیا، یہ شمع نبوت کی آخری جھلک تھی جو صحابہؓ نے دیکھی، حضرت ابو سعید ؓ خدری کی روایت ہے کہ علالت کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ فجر کی ایک رکعت پڑھی پھر دوسری رکعت پوری کی، اصحابؓ کے نزدیک اس سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، حضرت ابو بکرؓ صدیق نماز ختم کر کے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گئے ، حضور ﷺ نے دیکھا تو آپﷺ پر سکون دکھائی دیا ، پہلی جیسی بے چینی نہ تھی، جب حضور ﷺ کو بحال دیکھا توآپ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر کو جو مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر سُخ میں تھاگئے، صحابہؓ کرام بھی خوش خوش اپنے گھرو ں کو چلے گئے، کچھ دیر کے بعد حضور ﷺ کی طبیعت بگڑ گئی اور غرغرہ کی کیفیت طاری ہو گئی، حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں آپﷺ نے آخری وصیت فرمائی، " اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا ، نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا، آپﷺ حضرت عائشہؓ کی گود میں سرِ مبارک رکھ کر لیٹ گئے، اسی وقت حضرت عبدالرحمنؓ بن ابو بکر آئے، ان کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک تھی، حضور ﷺ اسے دیکھنے لگے ، حضرت عائشہؓ حضور ﷺ کا منشا سمجھ گئیں، مسواک چبا کر نرم کی پھر آپﷺ کو دی، آپﷺ نے اس سے اچھی طرح دانت صاف کئے، حضرت عائشہؓ اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ حضور ﷺ کے آخری وقت دہن مبارک میں میراآب دہن تھا، یہی نہیں بلکہ میرا حجرہ ، میرے کندھے اور گردن کے درمیان سر اقدس تھا، آپﷺکے آگے پانی کا ایک پیا لہ رکھا تھا، بار بار دونوں ہاتھ اس میں ڈبوتے اور چہرۂ اقدس پر مل لیتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے مرض میں اتنی شدت نہیں دیکھی جتنی آپﷺ کی بیماری میں تھی، زبان پرلا الہ الا اللہ کا ورد تھا، ارشاد فرمایا: " اِنَّ لِلموتِ سُکرات" موت کی بڑی تکلیف ہے، حضرت فاطمہؓ آپ کی اس بے چینی کو دیکھ کر تڑپ اٹھیں، کہا کتنا کرب ہے ؟ فرمایا : آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی کرب نہ ہو گا، پھر ان کو قریب بلا یا اور چپکے سے کان میں کچھ کہا، یہ سن کر وہ روپڑیں، پھر کچھ فرمایا تو ہنسنے لگیں ، حضر ت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مجھے محسوس ہوا کہ آپﷺکا جسم بھاری ہو رہا ہے ، آنکھیں چڑھ رہی ہیں، اس کے بعد ہاتھ پھیلا دئیے، زبان مبارک پر تھا :- الّٰلھم فی الرفیق الاعلیٰ ( ائے اللہ : میں رفیق اعلیٰ میں جانا چاہتا ہوں ) روح مبارک عالم بالا کو پرواز کر گئی اور دست مبارک نیچے گر گئے ، اس کے ساتھ ہی ایک مہک پھیل گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون ، وفات کے وقت آپﷺ ایک موٹا تہہ بند باندھے ہوئے اور ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حضرت عائشہؓ نے سر مبارک تکیہ پر رکھ دیااور ایک سفید چادر اڑھادی ، حضرت عائشہ ؓ شدت غم سے نڈھال ہو کر بیٹھ گئیں ، دوسری تمام عورتوں پرحزن و ملال کی کیفیت طاری تھی، لیکن فاطمہؓ سب سے زیادہ رنجیدہ تھیں ، تمام ازواج مطہرات مجسم غم بنی ہوئی تھیں، صحابہ ؓ کرام بھی سخت پریشان تھے، کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا ہو گیا، مسجد نبوی میں صحابہ ؓ کرام شدت غم سے اس قدر رو رہے تھے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، حضور ﷺ کی وفات کا کسی کو یقین ہی نہ آتا تھا، اکابر صحابہؓ پر بھی سکتہ طاری تھا ، حضرت عمرؓ عالم اضطراب میں ننگی تلوار لئے یہ کہتے ہوئے پھر رہے تھے ، خبر دار ! جو کوئی بھی کہے کہ حضور ﷺ نے وفات پائی تو اس کا سر اڑا دوں گا، حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ پر سکتہ طاری تھا، حضرت عبداللہؓ بن زید انصاری رو رو کر اپنی بینائی کھو بیٹھے، حضرت عمر ؓ اور حضرت مغیرہؓ بن شعبہ اجازت لے کر حجرہ میں آئے، حضرت مغیرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو گیا ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا ! تم جھوٹے ہو ، غشی طاری ہے، حضورﷺ اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک اللہ تعالیٰ منافقوں کو نیست و نابود نہ کر دے، حضرت ابو بکرؓ گھوڑے پر سوار ہو کر سُخ سے آئے ، مسجد میں حضرت سالم ؓ بن عبید اشجعی ملے ، بے تاب ہو کر رونے لگے، پوچھا ، کیا رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہو گیا؟ کہا: عمر ؓ کہتے ہیں جو یہ کہے اسے قتل کردوں گا، حضرت ابو بکرؓ خاموشی سے سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے کمرہ میں داخل ہوئے ، چہرہ کی چادر ہٹائی ، چہرہ مبارک پر جھکے اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا ، فرمایا: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ، اللہ تعالیٰ دو موتیں کبھی آپﷺ پرجمع نہیں کر یگا، آپﷺ حیات اور موت دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے، آپﷺ کی وفات سے نبوت اوروحی کاسلسلہ منقطع ہو گیا جو کسی اور نبی کی وفات سے نہیں ہوا تھا، حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر کہا: حضور ﷺ کو بلایا گیا ہے جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کوبلایا گیا تھا،وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے تھے، اسی طرح حضور ﷺ بھی آئیں گے اور منافقو ں کا قلع قمع کریں گے، حضرت ابو بکرؓ حجرے سے نکلے اور حضرت عمرؓ سے کہا بیٹھ جاؤ ، انھوں نے انکار کیا ، آپ لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا: اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد … جو شخص محمد(ﷺ) کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ وہ انتقال کر گئے، تم میں سے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو سن لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے ، وہ کبھی نہیں مرے گا، پھر سورہ ٔ آل عمران کی آیت ۱۴۴ کی تلاوت کی : (ترجمہ ) " اور محمد (ﷺ) تو صرف رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول ہو گزرے ہیں، بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرجائے گا تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا " ( سورہ ٔ آل عمران :۱۴۴) اس آیت کو سن کر ہر شخص کی آنکھیں کھل گئیں، یوں لگا جیسے یہ آیت ابھی ابھی اتری ہو ، سب کی زبانوں پر یہ آیت جاری ہوگئی، حضرت ابو بکرؓ نے سورہ ٔ زمر کی آیت ۳۰ کی تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے: (ترجمہ) " یقینا خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں " ( سورۂ زمر : ۳۰) اس کو سن کر حضرت عمر ؓ نے جھر جھری لی اور ان کے ہوش ٹھکانے ہوئے، ذہن کی گرہیں کھل گئیں، پیروں میں جسم کا بار اٹھانے کی تاب نہ رہی، وفات کے صدمہ سے زمین پر گر پڑے، حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ جب لوگوں میں آپﷺ کے مرنے یا نہ مرنے کا شک پیدا ہوگیا تو میں نے اپنا ہاتھ آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھا، مہر نبوت کو نہ پایا توکہا کہ آپﷺ کی وفات ہو گئی اور مہر اٹھا لی گئی، صحابہ ؓ کرام کو حضور ﷺ سے بے انتہا محبت تھی جس کی وجہ سے ہوش و حواس تقریباً گم ہو گئے تھے، اس کے بعد جب بھی حضرت بلالؓ اذان دیتے اور " اشھد ان محمد رسول اللہ " کہتے تو مسجد آہ و بکا سے گونج اٹھتی ، حضور ﷺ کے دفن کے بعد انھوں نے اذان دینی بند کر دی، مدینہ میں رہنا ان کے لئے مشکل ہو گیا، چھوڑنا چاہا تو حضرت ابو بکرؓ نے اپنے بڑھاپے کا واسطہ دے کر انھیں روک لیا،