انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جہاد کی حقیقت جہاد کے لغوی معنی: سعی و کوشش ہے، اﷲ کے راستے میں ہر قسم کی سعی و کوشش اور حق کو سربلند کرنے کے لئے ہر طرح کی جدوجہد ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے،یہ جدوجہد زبان سے ہو یا قلم سے یا مال سے یا زور بازو سے اس آخری صورت کو جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل اﷲ بھی کہا جاتا ہے ،قرآن کریم میں جہاد کا لفظ اپنے مذکور بالا عمومی معنی میں جابجا استعمال ہواہے ؛چنانچہ فرمایا:" اﷲ کے راستہ میں کوشش کا حق ادا کرو" یہاں مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ راہ حق میں تن ، من ، دھن کی بازی لگادیں اور حق کو سربلند کرنے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کر گزریں، پھر ضروری نہیں کہ یہ جہا د یا جدوجہد دوسروں ہی کے مقابلہ پر ہو، اپنے خلاف بھی ہوسکتی ہے؛ بلکہ اپنے نفس کو زیر کرنا جو سینہ پر چڑھا بیٹھا ہے؛ چونکہ سب سے زیادہ مشکل ہے اس لئے اسے " جہاد اکبر" سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے ، ارشاد نبوی ہے : " سب سے بہتر جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے " بہر حال اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے ، وہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ خود بھی صالح بنیں اور دوسروں کو بھی صالح بنائیں اور ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جس کی بنیاد عدل ، انصاف ، مساوات ، ہمدردی، نیکو کاری اور تقویٰ پر ہو، ہر شخص کو جان ، مال ، عزت اور عقیدہ کا تحفظ حاصل ہو، کوئی شخص اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے اور ساری دنیا امن ، آزادی اور محبت کے گیت گائے، اسلام اس انداز زندگی کو " سبیل اﷲ" (اﷲ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ) کے نام سے تعبیر کرتا ہے، قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس راستہ پر چلنے کی دعوت دیں مگر اس دعوت کا طریقہ یہ ہو کہ اس طریقہ زندگی کی مصلحتیں سمجھائی جائیں ، اس کی خوبیاں دلوں میں اتاری جائیں ، انداز بیان بھی ناصحانہ و مشفقانہ ہو اور اگر کبھی بحث کی صورت پیدا ہوجائے تب بھی سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے : " اور تم اپنی آ نکھ اٹھا کر بھی ( ان چیزوں کو رغبت سے ) نہ دیکھو جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو برتنے کے لئے دی ہیں اور (ان کی لاپرواہی دیکھ کر ) ان پر غم نہ کرو اور مسلمانوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ (سورہ حجر :۸۸) مگر دنیا میں سب لو گ یکساں نہیں ہوتے ، جس طرح شیروں ، بھیڑیوں اور چیتوں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ بکریوں اور بھیڑوں پر رحم کریں گے اور ان کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کریں گے اسی طرح انسانی معاشرہ میں بھی کچھ درندہ صفت انسان ہوتے ہیں جن سے انسانیت و شرافت کی توقع فضول ہے، اس لئے جب یہ انسانی درندے اﷲ کے بتائے ہوئے راستہ کو روک کر کھڑے ہوجائیں، امن عامہ کو غارت کرنے پر تل جائیں ، فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکائیں اور ان کو راہ راست پر لانے کے لئے جدوجہد کے پر امن ذرائع ناکام ہوجائیں تو پھر قرآن حکیم حکم دیتاہے کہ مسلمان ان کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال کریں مگر شرط یہ ہے کہ : ۱) طاقت کا استعمال اس لئے ہو کہ فتنہ و فساد کا استیصال ہو اور ہر شخص کی جان و مال و آبرو محفوظ ہو، ۲) دین کا معاملہ اﷲ اور بندہ کا معاملہ سمجھا جائے ، کسی دوسرے کو اس میں مداخلت کا حق باقی نہ رہے، ۳) نیز طاقت کا استعمال بقدر ضرورت ہی کیا جائے، جب ضرورت پوری ہوجائے تو ہاتھ روک لیا جائے اور زیادتی نہ کی جائے ، فرمایاگیاہے: " اور جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں(یعنی دین کی حمایت میں) ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرو؛ کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے" (سورۂ بقرہ : ۱۴۰) یعنی جب فتنہ و فساد کا استیصال ہوجائے اور دین کے معاملہ میں آزادی کا حق تسلیم کرلیاجائے تو پھر کسی قسم کی سختی جائز نہیں؛ کیونکہ زیادتی اسی وقت تک جائز ہے جب تک ظلم کا وجود ہے۔