انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عذابِ دوزخ "مَا یَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ،وَکَانَ اللہُ شَاکِرًا عَلِــیْمًا"۔ (النساء:۱۴۷) اللہ تعالی تم کو سزادیکر کیا کریں گے اگر تم سپاس گزاری کرو اورایمان لے آو اوراللہ تعالی بڑے قدر کرنے والے خوب جاننے والے ہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کو گنہگاروں کے عذاب سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی، نہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے گنہگار بندے اس عذاب میں مبتلا ہوں؛لیکن ازل سے اس نے جو قانون مقرر کردیئے ہیں،وہ ان کو توڑتا بھی نہیں جس وقت آدم کو جنت کی سرزمین سے نکال کر اس دنیا میں اس لیے بھیجا گیا کہ وہ اپنے عمل کے استحقاق سے اس جنت کو دوبارہ ہمیشہ کے لیے حاصل کریں اسی وقت یہ قانون بھی سنادیا گیا تھا۔ "قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا،فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَoوَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّار، ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ"۔ (البقرۃ:۳۸) نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب پھر اگر آوے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت سوجوشخص پیروی کریگا میری اس ہدایت کی تونہ توکچھ اندیشہ ہوگا اس پر اورنہ ایسے لوگ غمگین ہونگے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس آیت میں عذاب کے مستحق ہونے کی دووجہیں بتائی گئیں (۱)کفر (۲)تکذیب اور اوپر کی سورۂ نساء والی آیت میں عذاب دوزخ سے نجات پانے کی دو شرطیں شکر اور ایمان، یہ ان دونوں کے مقابل ہیں،اس سے ظاہر ہوا کہ شکر اورایمان جنت کے مستحق ہونے کی شرطیں ہیں اور کفر وتکذیب دوزخ کے مستحق ہونے کے اسباب ہیں،بقیہ تمام نیکیاں شکر اور ایمان کے فروع اور تمام برائیاں کفر وتکذیب کی شاخیں ہیں۔