انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خطابت شاعری کے بعد عربوں میں خطابت ،آتش بیانی اورزبان آوری کا درجہ تھا، گو امیر معاویہؓ نے اعلیٰ درجہ کے خطیب کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی تاہم ان کی تقریر بلاغت ادا اورزوربیان کا بہت عمدہ نمونہ ہوتی تھی،علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ: کان حکیما نصیحا بلیغاً ،معاویہ حکیم اورفصیح و بلیغ تھے (الفخری:۹۵) وہ اپنی تقریر سے بڑے بڑے مجمعوں کو مسحور کرلیتے تھے، جناب امیر کے مقابلہ میں ان کی جو حیثیت تھی وہ ظاہر ہے لیکن شامیوں کی تسخیر میں ان کی پولٹیکل تدبیروں کے علاوہ ان کی طلاقت لسانی کو بھی بڑا دخل تھا ،تاریخوں میں بکثرت ان کی تقریروں کے نمونے موجود ہیں، جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں جو فصیح و بلیغ تقریروں کا ایک بے مثل مجموعہ ہے اورجس میں تقریروں کے بہتر سے بہتر نمونے موجود ہیں، امیر معاویہؓ کی بھی ایک تقریر نمونۃ نقل کی ہے یہ تقریر اپنے اسلوب بیان اورلفظی ومعنوی بلاغت کے لحاظ سے بڑےبڑے مشہور خطیبوں کے خطبوں کے پہلو میں رکھی جاسکتی ہے لیکن طوالت کی وجہ سے اس موقع پر اس کے نقل کرنے کی گنجائش نہیں۔ (کتاب البیان والتبیین جاحظ۔جلد نمبر۱۔۱۷۲،۱۷۳)