انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سات حروف اور قرأتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (علی صاحبہا السلام) کو ایک سہولت یہ عطا فرمائی ہے کہ اس کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی ہے؛ کیونکہ بعض اوقات کسی شخص سے کوئی لفظ ایک طریقہ سے نہیں پڑھا جاتا تو اسے دوسرے طریقہ سے پڑھ سکتا ہے، صحیح مسلم،(باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف وبیان معناہ: ۴؍۲۵۷)کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ "بنوغفار" کے تالاب کے پاس تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آگئے اور انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ(ﷺ) اپنی امت کو حکم دیں کہ وہ قرآن کو ایک ہی حرف پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ سے اس کی معافی اور مغفرت طلب کرتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے؛ پھرجبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم دیاہے کہ آپ کی امت قرآن کریم کو دوحرفوں پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں میری امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے؛ پھر وہ تیسری بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرآن کریم کو تین حرفوں پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت چاہتا ہوں، میری اُمت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے؛ پھروہ چوتھی بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرآن کو سات حروف پر پڑھے؛ پس وہ ان میںسے جس حرف پر پڑھیں گے اُن کی قرأت درست ہوگی۔ ( مناہل العرفان: ۱/۱۳۳) چنانچہ ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْہُ"۔ (بخاری مع القسطلانیؒ: ۷/۴۵۳) "یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے؛ پس ان میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو اس طریقہ سے پڑھ لو"۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں سات حروف سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں؛ لیکن محققین کے نزدیک اس میں راجح مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو قرأتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اُن میں باہمی فرق واختلاف کل سات نوعیتوں پر مشتمل ہے اور وہ سات نوعیتیں یہ ہیں: (۱)اسماء کا اختلاف: جس میں اِفراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً ایک قرأت میں "تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ" ہے اور دوسری قرأت میںتَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ۔ (۲)افعال کا اختلاف: کہ کسی قرأت میں صیغۂ ماضی ہے، کسی میں مضارع اور کسی میں امر مثلاً ایک قرأت میں "تَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ"۔ ایک قرأت میں "رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا" ہے اور دوسری میں "رَبَّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا"۔ (۳)وجوہِ اعراب کا اختلاف: جس میں اعراب یازیرزبر پیش کا فرق پایا جاتا ہے، مثلاً "لَایُضَارَّ کَاتِبٌ" کی جگہ"لَایُضَارُّ کَاتِبٌ" اور "ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ" کی جگہ "ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدِ"۔ (۴)الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو مثلاً ایک قرأت میں"تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ" اور دوسری میں "تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ"۔ (۵)تقدیم وتاخیر کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ مقدم ہے اور دوسری میں مؤخر ہے، مثلاً "وَجَآءَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ" اور "وَجَآءَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ"۔ (۶)بدلیت کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرأت میں اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ مثلاً "نُنْشِزُھَا" اور "نَنْشُرُھَا" نیز "فَتَبَیَّنُوْا" اور "فَتَثَبَّتُوْا" اور "طَلْحٍ" اور "طَلْعٍ"۔ (۷)لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، مد، قصر، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلافات داخل ہیں، یعنی اس میں لفظ تو نہیں بدلتا؛ لیکن اس کے پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے، مثلاً "مُوْسٰی" کو ایک قرأت میں مُوْسَیْ" کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ بہرحال! اختلافِ قرأت کی ان سات نوعیتوں کے تحت بہت سی قرأتیں نازل ہوئی تھیں اور ان کے باہمی فرق سے معنی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا تھا، صرف تلاوت کی سہولت کے لیے ان کی اجازت دی گئی تھی، شروع میں چونکہ لوگ قرآنِ کریم کے اسلوب کے پوری طرح عادی نہیں تھے، اس لیے اُن سات اقسام کے دائرے میں بہت سی قرأتوں کی اجازت دیدی گئی تھی؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہرسال رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے، جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپﷺ نے دومرتبہ دَور فرمایا۔ (السنن لکبری للنسائی،حدیث نمبر۲۷۹۴) اس دَور کو "عرصۂ اخیرہ" کہتے ہیں، اس موقع پر بہت سی قرأتیں منسوخ کردی گئیں اور صرف وہ قرأتیں باقی رکھی گئیں جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلاوتِ قرآن کے معاملہ میں غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے اپنے عہدِ خلافت میں قرآن کریم کے سات نسخے تیار کرائے اور ان سات نسخوں میں تمام قرأتوں کو اس طرح سے جمع فرمایا کہ قرآن کریم کی آیتوں پر نقطے اور زیر زبر پیش نہیں ڈالے؛ تاکہ انہی مذکور قرأتوں میں سے جس قرأت کے مطابق چاہیں پڑھ سکیں، اس طرح اکثر قرأتیں اس رسم الخط میں سماگئیں اور جو قرأتیں رسم الخط میں نہ سماسکیں اُن کو محفوظ رکھنے کا طریقہ آپ نے یہ اختیار فرمایا کہ ایک نسخہ آپ نے ایک قرأت کے مطابق لکھا اور دوسرا دوسری قرأت کے مطابق، امت نے ان نسخوں میں جمع شدہ قرأتوں کو یاد رکھنے کا اس قدر اہتمام کیا کہ علم قرأت ایک مستقل علم بن گیا اور سینکڑوں علمائ، قرا اور حفاظ نے اس کی حفاظت میں اپنی عمریں خرچ کردیں۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے سات نسخے مختلف خطوں میں بھیجے تو ان کے ساتھ ایسے قاریوں کو بھی بھیجا تھا جو اُن کی تلاوت سکھا سکیں؛ چنانچہ یہ قاری حضرات جب مختلف علاقوں میں پہنچے تو انھوں نے اپنی اپنی قرأتوں کے مطابق لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی اور یہ مختلف قرأتیں لوگوں میں پھیل گئیں، اس موقع پر بعض حضرات نے ان مختلف قرأتوں کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے ہی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور اس طرح "علم قرأت" کی بنیاد پڑگئی اور ہرخطے کے لوگ اس علم میں کمال حاصل کرنے کے لیے ائمۂ قرأت سے رجوع کرنے لگے، کسی نے صرف ایک قرأت یاد کی، کسی نے دو، کسی نے تین، کسی نے سات اور کسی نے اس سے بھی زیادہ، اس سلسلے میں ایک اصولی ضابطہ پوری امت میں مسلم تھا اور ہرجگہ اسی کے مطابق عمل ہوتا تھا اور وہ یہ کہ صرف وہ "قرأت" قرآن ہونے کی حیثیت سے قبول کی جائے گی جس میں تین شرائط پائی جاتی ہوں: (۱)مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط میں اس کی گنجائش ہو۔ (۲)عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہو۔ (۳)وہ آنحضرتﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور ائمۂ قرأت میں مشہور ہو جس قرأت میں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو، اسے قرآن کا جزء نہیں سمجھا جاسکتا، اس طرح متواتر قرأتوں کی ایک بڑی تعداد نسلاً بعد نسلٍ نقل ہوتی رہی اور سہولت کے لیے ایسا بھی ہوا کہ ایک امام نے ایک یاچند قرأتوں کو اختیار کرکے انہی کی تعلیم دینی شروع کردی اور وہ قرأت اُس امام کے نام سے مشہور ہوگئی؛ پھر علماء نے ان قرأتوں کو جمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی شروع کیں؛ چنانچہ سب سے پہلے امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ، امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ، قاضی اسماعیل رحمہ اللہ اور امام ابوجعفر طبری رحمہ اللہ نے اس فن پر کتابیں مرتب کیں جن میں بیس سے زیادہ قرأتیں جمع تھیں؛ پھر علامہ ابوبکر ابن مجاہد رحمہ اللہ (متوفی: ۳۲۴ھ) نے ایک کتاب لکھی، جس میں صرف سات قاریوں کی قرأتیں جمع کی گئی تھیں، اُن کی یہ تصنیف اس قدر مقبول ہوئی کہ یہ سات قراء کی قرأتیں دوسرے قراء کے مقابلہ میں بہت زیادہ مشہور ہوگئیں؛ بلکہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگے کہ صحیح اور متواتر قرأتیں صرف یہی ہیں؛ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ نے محض اتفاقاً ان سات قرأتوں کو جمع کردیا تھا، اُن کا منشاء یہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کے سوا دوسری قرأتیں غلط یاناقابلِ قبول ہیں، علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ کے اس عمل سے دوسری غلط فہمی یہ بھی پیدا ہوئی کہ بعض لوگ "سبعۃ احرف" کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ ان سے یہی سات قرأتیں مراد ہیں جنھیں ابن مجاہد رحمہ اللہ نے جمع کیا ہے؛ حالانکہ پیچھے بتایا جاچکا ہے کہ یہ سات قرأتیں صحیح قرأتوں کا محض ایک حصہ ہیں؛ ورنہ ہروہ قرأت جو مذکورہ بالا تین شرائط پر پوری اُترتی ہو، صحیح، قابلِ قبول اور ان سات حروف میں داخل ہے جن پر قرآنِ کریم نازل ہوا۔