انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا خبط کی بیٹی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں، ابوحذیفہ بن مغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ نکاح یاسرعبسی سے کہ ابوحذیفہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا، حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے توابوحذیفہ نے ان کوآزاد کردیا۔ (اصابہ:۸/۱۱۴۔ استیعاب:۲/۷۵۹) اسلام ایام پیری میں مکہ سے اسلام کی صدابلند ہوئی تو حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا، یاسر رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ تینوں نے اس دعوت کولبیک کہا، تاریخ میں ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبرتھا، کچھ دن اطمینان سے گذرے تھے کہ قریش کا ظلم وستم شروع ہوگیا اور بہ تدریج بڑھتا گیا؛ چنانچہ جوشخص جس مسلمان پرقابو پاتا طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتا تھا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کوبھی خاندانِ مغیرہ نے شرک پرمجبور کردیا؛ لیکن وہ اپنے عقیدہ پرنہایت شدت سے قائم رہیں، جس کا صلہ یہ ملا کہ مشرکین ان کومکہ کی جلتی تپتی ریت پرلوہے کی زرہ پہنا کردھوپ میں کھڑا کرتے تھے؛ لیکن ان کے عزم واستقلال کے چھینٹوں کے سامنے یہ آتش کدہ سرد پڑجاتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گذرتے تویہ حالت دیکھ کرفرماتے آلِ یاسر! صبر کرو! اس کے عوض تمہارے لیے جنت ہے۔ شہادت دن بھر اس مصیبت میں رہ کرشام کونجات ملتی تھی، ایک مرتبہ شب کوگھر آئیں توابوجہل نے ان کوگالیاں دینی شروع کیں اور پھراس کا غصہ اس قدرتیز ہوا کہ اُٹھ کرایسی برچھی ماری کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جاں بحق تسلیم ہوگئیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ بناکر دند خوش رسمے بخون وخاک غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را حضرت عمار رضی اللہ عنہ کواپنی والدہ کی اس بے کسی پرسخت افسوس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آکرکہا کہ اب حد ہوگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تاکید فرمائی اور کہا: خداوندا! آلِ یاسر رضی اللہ عنھن کوجہنم سے بچا، یہ واقعہ ہجرت نبوی سے قبل کا ہے، اس بناپر حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اسلام میں سب سے پہلے شہید ہوئیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ (استیعاب:۲/۷۶۰) غزوۂ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کردیا۔ (اصابہ:۸/۱۱۴، بحوالہ ابن سعد)