انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابوالسرایا کی حکمرانی اور اس کا انجام زہیر بن مسیب شکست کھاکر قصر ابن ہبیرہ میں آکرمقیم ہوگیا، حسن بن سہل نے عبدوس بن محمد بن خالد مردروزی کوچار ہزار فوج کے ساتھ زہیر کی مدد کے لیے روانہ کیا، زہیر وعبد دین نے کوفہ کی طرف حملہ آوری کی؛ مگر۱۵/رجب سنہ۱۹۹ھ کوابوالسرایا کے مقابلہ میں شکست پاکر مقتول ہوئے، اس فتح کے بعد ابوالسرایا نے کوفہ میں اپنے نام کا سکہ جاری کیا اور متعدد علویوں کوصوبوں کی حکومت پرمامور کرکے روانہ کیا، اہواز کی حکومت پرعباس بن محمد بن عیسیٰ بن محمد کومکہ کی حکومت پرحسین بن حسن بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف بہ افطس کویمن کی حکومت پرابراہیم بن موسیٰ بن جعفر صادق کو، بصرہ کی حکومت پرزید بن موسیٰ بن جعفر صداق کوروانہ کیا، عباس نے بصرہ پروہاں کے عامل کوشکست دے کرقبضہ کرلیا اور اسی طرح ابوالسرایا کے ہرایک عامل کوکامیابی حاصل ہوئی، ابوالسرایا نے عباس بن محمد کولکھا کہ تم اہواز سے فوج لے کربغداد پرمشرقی جانب سے حملہ کرو اور خود فوج لے کر قصر ابن ہبیرہ میں آٹھہرا، حسن بن سہل نے بغداد سے علی بن سعید کومدائن اور واسط کی حفاظت کے لیے مدائن کی طرف روانہ کیا تھا، ابوالسرایا کواس کی خبر لگی تواس نے فوراً قصر ابن ہبیرہ سے ایک فوج بھیج دی، جس نے علی بن سعید کے پہنچنے سے پہلے ہی ماہِ رمضان سنہ۱۹۹ھ میں مدائن پرقبضہ کرلیا خود ابوالسرایا قصر ابن ہبیرہ سے روانہ ہوکر نہرصَرصَر پرآکر مقیم ہوا، علی بن ابی سعید نے مدائن پہنچ کرماہِ شوال سنہ۱۹۹ھ میں ابوالسرایا کے لشکر پر محاصرہ ڈال دیا، ابوالسرایا یہ سن کرکہ مدائن میں اس کی فرستادہ فوج محصور ہوگئی ہے، نہر صَر صَرسے قصر ابنِ ہبیرہ کی جانب روانہ ہوا۔ ماہِ رجب سنہ۱۹۹ھ میں جب حسن بن سہل کی فرستادہ فوجیں ابوالسرایا سے شکست پاچکیں اور حسن بن سہل کے سردار مقتول وگرفتار ہوگئے توحسن بن سہل کوبڑی فکر پیدا ہوئی طاہر اس زمانہ میں شہررقہ میں مقیم تھا اور نصر بن شیث کی وجہ سے وہ واپس نہیں آسکتا تھا، ہرثمہ بغداد سے رخصت ہوکر خراسان کی طرف روانہ ہوگیا تھا، ان دونوں سرداروں کے سوا اور کوئی ایسا سردار حسن بن سہل کے پاس نہ تھا جوابوالسرایا کے مقابلہ پربھیجا جاسکے، ادھر ابوالسرایا نے بغداد کے فتح کرنے کی تیاریاں شروع کردیں تھیں، بصرہ، کوفہ، واسط، مدائن وغیرہ پراُس کا قبضہ ہوچکا تھا، حسن بن سہل ہرثمہ سے اور ہرثمہ حسن سے ناراض تھا، حسن ہرثمہ سے کوئی امداد نہ لینا چاہتا تھا؛ مگرنہایت مجبور ہوکر اس نے تیز رفتار قاصد ہرثمہ کے پاس بھیجا اور خط میں لکھا تم فوراً راستہ ہی سے واپس لوٹ آؤ اور ابوالسرایا کے قصے کوچکاؤ، ہرثمہ یہ چاہتا تھا کہ حسن بن سہل کے کاموں میں سہولت پیدا ہو؛ مگر چونکہ حسن نے خود امداد واعانت طلب کی تھی اس لیے ہرثمہ نے انکار مناسب نہ سمجھا اور فوراً بغداد کی جانب لوٹ پڑا، ہرثمہ بغداد میں اُس وقت داخل ہوا جب کہ ابوالسرایا نہر صَرصَر سے قصر ابن ہبیرہ کی جانب مدائن کے محاصرے کی خبرسن کرروانہ ہوا تھا، ہرثمہ نے بغداد سے بلاتوقف ابوالسرایا کے تعاقب میں کوچ کردیا، راستے میں اوّل ابوالسرایا کے ہمراہیوں کی ایک جماعت ملی اُس کوہرثمہ نے گھیر کرقتل کردیا؛ پھرتیزی سے آگے آگے بڑھ کرابوالسرایا کوجالیا، ابوالسرایا نے لوٹ کرمقابلہ کیا، اس معرکہ میں ابوالسرایا کے بہت سے ہمراہی مارے گئے ابوالسرایا اپنی جان بچا کروہاں سے بھاگ نکلا اور کوفہ میں پہنچ کربنوعباس اور اُن کے ہواخواہوں کے مکانات کوچن چن کرخوب لوٹا اور سب کومسمار ویران کردیا ان کا مال واسباب اور امانتیں جولوگوں کے پاس تھیں سب پرقبضہ کیا، ہرثمہ نے بڑھ کرکوفہ کا محاصہ کرلیا، ابوالسرایا نے کوفہ میں محصور ہوکر قریباً دومہینے تک مدافعت میں استقامت دکھائی؛ لیکن محاصرہ کی شدت سے مایوس ومجبور ہوکر محمد بن جعفر بن محمد کوہمارہ لے کر آٹھ سوسواروں کے ساتھ کوفہ سے بھاگ نکلا، ۱۵/محرم الحرام سنہ۱۶۰ھ کوہرثمہ نے کوفہ میں داخل ہوکر وہاں ایک عامل مقرر کیا او رایک روزہ قیام کے بعد بغداد کی طرف روانہ ہوگیا۔ ابوالسرایا کوفہ سے قادسیہ اور قادسیہ سے طوس کی جانب روانہ ہوا، مقام خوزستان میں ایک قافلہ مل گیا جواہواز سے بہت سامال واسباب لیے ہوئے جارہا تھا، ابوالسرایا نے اس کولوٹ کرمال واسباب اپنے ہمراہیوں میں تقسیم کردیا؛ انہیں ایام میں حسن بن علی مامونی نے اہواز سے ابوالسرایا کے عامل کوبھگاکرقبضہ کرلیا تھا، جب حسن بن علی نے ابوالسرایا کی اس زیادتی کا حال سنا تووہ اہواز سے فوج لے کرابوالسرایا کے تعاقب میں روانہ ہوا، دونوں کا مقابلہ ہوا اور ابوالسرایا کوشکست فاش حاصل ہوئی، ابوالسرایا شکست پاکر موضع راس عین علاقہ جلولا میں آیا حسن بن علی نے حبرپاکر فوراً ابوالسرایا کوجاگھیرا اور ابوالسرایا کومعہ محمد بن جعفر بن محمد گرفتار کرکے حسن بن سہل کی خدمت میں بھیج دیا، حسن بن سہل نے ابوالسرایا کوقتل کراکر اس کی لاش کوبغداد کے پل پرلٹکادیا اور اس کے سرکومعہ محمد بن جعفر بن محمد کے مامون کی خدمت میں روانہ کیا، علی بن سعید نے مدائن کوفتح اور ابوالسرایا کی فوج کوقتل کرکے حسن بن سہل کے حکم کے موافق اوّل واسط کی طرف جاکر اس پرقبضہ کیا؛ پھرواسط سے بصرہ کی طرف کوچ کیا اور وہاں زید بن موسیٰ بن جعفر صادق کوبے دخل کرکے بصرہ پرقبضہ کیا۔ زید بن موسیٰ نے بصرہ میں تمام بنوعباس اور اُن کے ہواخواہوں کے مکانات کوآگ لگواکر خاک سیاہ کردیئے تھے، اس لیے زید النار کے نام سے شہرت پائی تھی، علی بن سعید نے زید النار کوگرفتار کرکے نظربند کردیا؛ اس طرح محرم سنہ۲۰۰ھ میں ابوالسرایا اور ملکِ عراق کے فتنوں کا خاتمہ ہوا؛ لیکن حجاز ویمن میں ابھی تک شورش وبدامنی بدستور باقی تھی۔