انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہؓ کے عمل سے حدیث نبوی کی تخصیص جہاں تک تیسری صورت حال کا تعلق ہے محدثین صحابہ کرام کے ارشادات سے حضوراکرمﷺ کے ارشادات میں تخصیص تک روا رکھتے رہے ہیں،صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہؓ(۷۴ھ) نے فرمایا: "مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر:۲۸۸،شاملہ، موقع الاسلام) ترجمہ:جس نے ایک رکعت بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی،مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ حضور اکرمﷺ کے ارشاد: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَاب" میں یہ استثناء "مگرجب کہ وہ امام کے پیچھے ہو" عام روایات میں موجود نہ تھا،مگر حضرت امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) نے جو امام بخاری وامام مسلم دونوں کے جلیل القدر استاد اور شیخ ہیں اور حدیث اور فقہ کے جامع امام ہیں؛ انہوں نے صحابی رسولﷺ کے اس فیصلے سے حضوراکرمﷺ کی اس حدیث کا معنی بتلاتے ہوئے صحابی کے قول سے حدیث نبوی کی تخصیص کی، امام ترمذی لکھتے ہیں: "وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَه "۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمر:۲۸۷،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ حضورﷺ کے اس ارشاد کہ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی کا معنی یہ ہے کہ جب وہ اکیلاہو یعنی جماعت سے نہیں اکیلے نماز پڑھ رہا ہو اور امام احمد نے اس پرحضرت جابر بن عبداللہؓ کی مذکورہ روایت سے استدلال کیا،امام احمد کہتے ہیں کہ یہ صاحب (جابر بن عبداللہؓ)حضورﷺ کے صحابہؓ میں سے ہیں اور انہوں نے حضورﷺ کے ارشاد: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" کامطلب یہ سمجھا ہے کہ جب کوئی اکیلے نماز پڑھے(یعنی امام کے پیچھے نماز پڑھنا اس میں مراد نہیں ہے)تو بدون فاتحہ اس کی نماز نہیں ہوتی۔ اس وقت اس مسئلہ سے بحث پیش نظر نہیں نہ یہاں ائمہ مجتہدین کے اختلاف مسالک پر گفتگو ہورہی ہے،یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اکابرمحدثین نے صحابہ ؓکے اقوال واعمال کو حضورﷺ کی احادیث کی شرح کرنے میں کتنی اہمیت دی ہے اور حق یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنے قول وعمل میں حضورﷺ کے ہی ترجمان سمجھے جاتے تھے،ان کے تمام دینی ارشادات اور اعمال حضورﷺ کی ہی تعلیمات قدسیہ کا نشان تھے، جو عملی اختلاف صحابہ میں راہ پاگیا آگے امت کے لیے سند بن گیا، جس طریقہ پر بھی کسی صحابی کا عمل مل گیا اسے اب کسی طرح گمراہی قرار نہ دیا جائے گا؛ اسے باطل کہنا صرف اہل باطل کا ہی نصیب ہوگا، ان حضرات کے جملہ دینی اعمال کسی نہ کسی شکل میں حضورﷺ سے ہی استناد رکھتے ہیں، حافظ ابن تیمیہؒ نے ائمہ کے مختلف فیہ مسائل کو صحابہ کے اعمال سے مسند بتلایا ہے اور سلف کے اختلاف کو امت کے لیے وسعت عمل کی راہیں فرمایا ہے،آپ اپنے رسالہ "سنت الجمعہ" میں لکھتے ہیں: "فإن السلف فعلوا هذا، وهذا، وكان كلا الفعلين مشهورا بينهم، كانوا يصلون على الجنازة بقراءة وغير قراءة، كما كانوا يصلون تارة بالجهر بالبسملة، وتارة بغير جهر بها، وتارة باستفتاح، وتارة بغير استفتاح، وتارة برفع اليدين في المواطن الثلاثة، وتارة بغير رفع اليدين، وتارة، يسلمون تسليمتين، وتارة تسليمة واحدة، وتارة يقرؤون خلف الإمام بالسر، وتارة لا يقرؤون . وتارة يكبرون على الجنازة أربعا، وتارة خمسا، وتارة سبعا . كان فيهم من يفعل هذا،وفيهم من يفعل هذا ، كل هذا ثابت عن الصحابة"۔ (رسالہ "سنت الجمعہ" لابن تیمیہ:۲/۳۲،شاملہ) سلف صالحین نے دونوں طرح کیا ہے اور دونوں فعل ان میں مشہور ومعروف رہے ہیں، بعض سلف نماز جنازہ میں قرأت کرتے تھے جیسے کبھی بسم اللہ نماز میں اونچی پڑھ لیتے تھے اور کبھی بسم اللہ بغیر جہر کے پڑھتے تھے،کبھی افتتاح والی دعا پڑھ لیتے اور کبھی نہ پڑھتے، کبھی رکوع کو جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت شروع کرتے وقت رفع یدین کرلیااور کبھی ان تینوں موقعوں پر رفع یدین نہ کرتے،نماز پوری ہونے پر کبھی دونوں طرف سلام پھیرتے کبھی ایک طرف، کبھی امام کے پیچھے قرأت (فاتحہ اور سورت)کرلیتے اورکبھی نہ کرتے، نماز جنازہ پر کبھی سات تکبیریں کہتے اور کبھی چار،سلف میں ان میں سے ہر طریقے پر عمل کرنے والے تھے اور یہ سب اقسام عمل صحابہ سے ثابت ہیں۔