انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متفرقات warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. (۱)جب کسی شادی شدہ عورت کو اولاد ہوگی تو وہ اس کے شوہر ہی کی اولاد ہوگی،کسی شبہ کی بنیاد پر یہ کہنا کہ یہ اس کے شوہر سے نہیں ہے؛ بلکہ فلاں آدمی سے ہے، درست نہیں اور اس لڑکے کو حرامی کہنا بھی درست نہیں ،اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حوالہ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ… َ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَر (بخاري بَاب تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ :۱۹۱۲) بند (۲)حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ ہیں اورزیادہ سے زیادہ دو سال، چھ مہینہ سے پہلے بچہ کی پیدائش نہیں ہوسکتی اورنہ دوسال سے زائد حمل رہتا ہے۔ حوالہ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا (الاحقاف:۱۵) وَحَمْلُهُ وفصاله ، أي مدة حمله وفصاله (روح المعاني ۱۶/۱۹) >عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لاَ يَكُونُ الْحَمْلُ أَكْثَرَ مِنْ سَنَتَيْنِ قَدْرَ مَا يَتَحَوَّلُ ظِلُّ الْمِغْزَلِ (سنن الدار قطني النكاح:۳۹۲۰) بند (۳)شرعی ضابطہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے بچہ کو حرامی نہ کہے، اس لیے پورے چھ مہینہ میں یا اس سے زیادہ میں جو بچہ پیدا ہو یا نکاح ہونے کے بعد رخصتی سے پہلے پیدا ہو اوراس پر شبہ ہو تو حرامی نہ کہیں گے اوراگر شوہر انکار کرے تو پہلے لعان ہوگا (بشرطیکہ اسلامی ملک ہو)پھرحکم لگایا جائے گا۔ حوالہ وقد دل ظاهر الحديث على أن الولد إنما يلحق بالأب بعد ثبوت الفراش، وهو لا يثبت إلا بعد إمكان الوطء في الزواج الصحيح أو الفاسد. وهو رأي الجمهور. وروي عن أبي حنيفة أنه يثبت بمجرد العقد؛ لأن مجرد المظنة كافية (الفقه الاسلامي وادلته عناية الشرع بالنسب وتحريم التبني والإلحاق من طريق غير مشروع:۳/۱۰) بند (۴)نکاح میں شرط لگانا ناجائز ہے لہذا حلالہ کے سلسلہ میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ شوہر سے مطلقہ عورت یا اس کا سرپرست یا خود نکاح کرنے والا یہ شرط نہ لگائے کہ نکاح کے بعد وہ اس کو طلاق دیدیگا بلکہ یہ نکاح اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح عمومی نکاح ہوا کرتے ہیں اوراس کے بعد طلاق بھی اسی ضرورت کی وجہ سے دینا چاہیے جس کی بنا پر شریعت نے طلاق دینےکی اجازت دی ہے۔حوالہ إن كان الشرط صحيحاً يلائم مقتضى العقد، ولايتنافى مع أحكام الشرع، وجب الوفاء به، كاشتراط المرأة أن يسكنها وحدها في منزل، لا مع أهله أو مع ضَرَّتها، أو ألا يسافر بها سفراً بعيداً إلا بإذن أهلها… وأن كان الشرط فاسداً، أي لا يلائم مقتضى العقد، أو لا تجيزه أحكام الشرع، فالعقد صحيح، ويبطل الشرط وحده، مثل اشتراط الخيار لأحد الزوجين أو لكل منهما أن يعدل عن الزواج في مدة معينة، وهذا بخلاف القاعدة العامة: وهي أن الشرط الفاسد في المعاوضات المالية كالبيع يفسدها.فإن ورد النهي عن الشرط، كاشتراط طلاق ضرتها، كره الوفاء به، لحديث لا يحل لامرأة تسأل طلاق ضَرتها . (الفقه الاسلامي وادلته الشروط في الزواج:۴۶،۴۷/۹) بند