انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو جندل کی واپسی معاہدہ کی شرطوں کے طئے ہوجانے کے بعدسہیل بن عمرو سفیر صلح کے صاحبزادے حضرت ابوجندل ؓبیڑیاں پہنے ہوئے فریادی بن کر حضور ﷺ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے تو چودہ سو فدائیوں کی پر جوش جماعت نہایت صبر آزما اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئی، ایک طرف ان کی غیرت ایمانی کہتی تھی کہ ہم اپنے جسم کے خون کا آخری قطرہ بھی دینے کو تیار ہیں مگر اسلام کی اس توہین کا زخم کھانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ دب کر صلح کی جائے اور ایک کلمہ گو کو کافر کے ہاتھ میں دے دیا جائے، دوسری طرف ایمان کی روشنی عطا کرنے والے کی اطاعت شعاری اور ایفاء عہد کی ذمہ داری ہے ۔ اس صورت حال میں صحابہؓ کی غیرت ایمانی اور اطاعت اسلامی کی کشمکش اور معاہدہ کے پس منظر میں اسلامی مشن کی کامیابی کی بشارت ایک ساتھ حضور ﷺ کی آنکھوں کے سامنے تھی ، وقتی اور عارضی اندوہ پر دائمی اور اصلی مسرت کو آپﷺ نے ترجیح دی۔ باپ نے حضرت ابو جندل ؓ کو دیکھ کر حضور ﷺسے کہا کہ معاہدہ کی رُو سے آپﷺ انہیں پناہ نہیں دے سکتے ، حضور ﷺنے فرمایا: سہیل ابھی تو معاہد ہ لکھا نہیں گیا ہمیں اس مظلوم کو ساتھ لے جانے دو، سہیل نے غصہ میں کہا : تو پھر اس معاہدہ کو ختم سمجھو، حضورﷺ نے نرمی سے فرمایا : اچھا تو پھر تم حضرت ابوجندلؓ کو ہمیں عطیہ کے طور پر دے دو، مگر سہیل نے منظور نہ کیا، مجبوراً حضور ﷺنے ابو جندلؓ کو یہ کہہ کر واپس کردیا … ابو جندل صبر کرو اگر اﷲ نے چاہا تو جلد ہی تم کو اس مصیبت سے نجات دے گا،(زادالمعاد) حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ابو جندل ؓ! صبر کرواور اسے باعث ثواب سمجھو، اﷲ تمھارے لئے اور تمھارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لئے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا، ہم نے قریش سے صلح کرلی ہے اور ہم نے ان کو اور انھوں نے ہم کو اس پر اﷲ کا عہد دے رکھا ہے اس لئے ہم بد عہدی نہیں کرسکتے، پھر حضور ﷺ نے فرمایا: تم اسے لے جاؤ مگر ایذا نہ دینا، مکرز بن حفص نے اس کا ذمہ لیا، حضرت ابو جندل ؓ کی رہائی کی صورت اﷲ تعالیٰ نے کس طرح پیدا کی اس کے بارے میں علامہ شبلی ؒ لکھتے ہیں : " جو مسلمان مکہ میں مجبوری سے رہ گئے تھے ان کو کفار سخت تکلیفیں دیتے تھے اس لئے وہ بھاگ بھاگ کر مدینہ چلے آتے تھے ، سب سے پہلے عتبہ ؓ بن اسید (ابو بصیر)بھاگ کر مدینہ آئے، قریش نے آنحضرت ﷺ کے پاس دو شخص بھیجے کہ ہمارا آدمی واپس کردیجیے ، آنحضرت ﷺ نے عتبہؓ سے فرمایا! " واپس جاؤ عتبہؓ نے عرض کیا ! کیا آپﷺ مجھے کافروں کے پاس بھیجتے ہیں کہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا! خدا اس کی تدبیر نکالے گا، عتبہؓ مجبوراً دو کافروں کی حراست میں واپس گئے؛ لیکن مقام ذوالحلیفہ میں پہنچ کر انھوں نے ایک شخص کو قتل کرڈالا، دوسرا شخص جو بچ رہا اس نے مدینہ آکر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی ، ساتھ ہی ابو بصیر بھی پہنچے اور عرض کیا کہ آپﷺ نے عہد کے موافق اپنی طرف سے مجھ کو واپس کردیا، اب آپﷺ پر کوئی ذمہ داری نہیں،یہ کہہ کر وہ مدینہ سے چلے گئے اور مقام " عیص میں جو سمندر کے کنارے ذومرہ کے پاس ہے رہنا اختیار کیا ، مکہ کے بے کس اور ستم رسیدہ لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ جان بچانے کا ایک ٹھکانا پیدا ہوگیاہے تو چوری چھپے بھاگ بھاگ کر یہاں آنے لگے، چند روز کے بعد اچھی خاصی جمعیت ہوگئی اور اب ان لوگوں نے اتنی قوت حاصل کرلی کہ قریش کا کاروان تجارت جو شام کو جایا کرتا تھا اس کو روک لیتے تھے ، ان حملوں میں جو مال غنیمت مل جاتا وہی ان کی معاش کا سہارا تھا۔ قریش نے مجبور ہوکر آنحضرت ﷺ کو لکھ بھیجا کہ معاہدہ کی اس شرط سے ہم باز آتے ہیں ، اب جو مسلمان چاہے مدینہ جاکر آباد ہوسکتاہے، ہم اس سے تعرض نہ کریں گے ، آپﷺ نےبے سہارا وطن مسلمانوں کو لکھ بھیجا کہ یہاں چلے آؤ، چنانچہ ابول جندلؓ اور ان کے ساتھی مدینہ میں آکر آباد ہوگئے اور کاروان قریش کا راستہ بدستور کھل گیا۔ (سیرت النبی) اس معاہدہ صلح کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیاکہ لوگ یہیں قربانی کریں؛ لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص آمادہ نہ ہوا ، اس لئے آپﷺ خیمہ میں تشریف لےگئے ، اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ جو ساتھ تھیں انہوں نے دیکھاکہ چہرہ مبارک پر رنج کے آثار ہیں، عرض کیا: کوئی بات ناگوار خاطر ہوئی ؟ فرمایا: جذباتی اعتبار سے سب ملول ہیں ،پئے در پئے واقعات نے صدمہ پہنچایا ہے ، حضرت اُم سلمہؓ نے فرمایا: بہتر ہے آپ ﷺ کسی سے کچھ نہ کہیے ، ان کے سامنے خود اپنا اونٹ نحر کر دیجئے اور حلق کروائیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ، آپﷺ نے اس مشورہ پر عمل کیا ، آپﷺ کو قربانی کرتا دیکھ کر سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا ،صلح کے بعد تین دن حدیبیہ میں قیام فرمایا ، پھر روانہ ہوئے تو سورۂ فتح کی یہ آیات نازل ہوئیں: " بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ جو کچھ گناہ آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ معاف فرمائے ، اور تم پر اپنا احسان پورا کردے اور تم کو سیدھی راہ چلائے ، اور آپ کو ایک بہتر مدد دے " ( سورۂ فتح :۲، ۳ ) فتح کے بارے میں اختلاف ہے ، بعض اس سے صلح حدیبیہ مراد لیتے ہیں اور بعض فتح مکہ ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت ہے کہ تم تو مکہ کی فتح کو فتح خیال کرتے ہو اور ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح سمجھتے ہیں، حضرت براءبن عازب کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس فتح کا ذکر ہے وہ فتح بیعت الرضوان ہے، فتح مکہ بھی ایک فتح ہے لیکن بیعت الرضوان ایک فتح عظیم ہے ، صاحب بیضاوی اس فتح سے مکہ کی فتح کا وعدہ مراد لیتے ہیں یا پھر وہ فتوحات جو اسی سال نصیب ہوئیں جیسے فتح فدک ، فتح خیبر وغیرہ ، امام سیوطیؒ اس آیت میں فتح سے حدیبیہ جو مبدأفتح تھی مراد لیتے ہیں ، فتح مبین سے مراد فتح حدیبیہ اور فتح خیبر دونوں ہیں ، سورۂ نصر میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے ، الغرض صلح حدیبیہ در اصل فتوحات کی ابتداء ہے ، ڈاکٹر محمد حمیدا للہ کے الفاظ میں" یہی صلح حدیبیہ ہے جسے عہد نبوی کی سیاست خارجہ کا شاہکار کہنا چاہیے، تمام مسلمان جس چیز کو شکست سمجھتے تھے خدا نے اس کو فتح کہا، چنانچہ نتائج ما بعد نے اس راز سر بستہ کی عقدہ کشائی کی، اب تک مسلمان اور کفار ملتے جلتے نہ تھے، اب صلح کی وجہ سے آمد ورفت شروع ہوئی ، خاندان اور تجارتی تعلقات کی وجہ سے کفار مدینہ میں آتے، مہینوں قیام کرتے اور مسلمانوں سے ملتے جلتے تھے، باتو ں باتوں میں اسلامی مسائل کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا تھا، اس سے خود بخود کفار کے دل اسلام کی طرف کھینچے آتے تھے، مورخین کا بیان ہے کہ اس معاہدہ صلح سے لیکر فتح مکہ تک اس قدر کثرت سے لوگ اسلام لائے کہ کبھی نہیں لائے تھے، حضرت خالد ؓبن ولید (فاتح شام ) اور حضرت عمرو بن العاص (فاتح مصر ) کا اسلام بھی اسی زمانہ کی یاد گار ہے، ان کے علاوہ حضرت عثمانؓ بن طلحہ نے بھی اسلام قبول کیا۔