انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ولید بن ہشام کا خروج اوراس کا قتل اسی اثناء میں ولید بن ہشام المعروف بہ ارکوہ نے خروج کیا، اس کا مختصر حال یہ ہے کہ جب اندلس میں منصور بن ابی عامر نے مستولی ومتصرف ہوکر شہزادگانِ بنوامیہ کی گرفتاری وقتل کا سلسلہ شروع کیا تو بنو امیہ کے آخر خلیفہ کا بیٹا ولید اپنی جان کے خوف سے چھُپ کر قیروان چلا آیا تھا،یہاں چند روز رہ کر یمن، مکہ وغیرہ ہوتا ہوا شام کے ملک میں آگیا،یہاں بد امنی کا دور دورہ تھا، اس نے موقع پاکر یہاں بنو امیہ کی خلافت کے لئے دعوت دینی شروع کی،کچھ لوگ اس کے ہم خیال ہوگئے مگر یہاں پوری پوری کامیابی نہ دیکھ کر پھر ملکِ مصر کی طرف چلا گیا، وہاں سے برقہ کے علاقے میں پہنچا ،وہاں اس کو اچھی خاصی کامیابی ہوئی، حاکم عبیدی کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اول اول اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، چونکہ حاکم عبیدی کی حکومت سے لوگ ناخوش اورنالاں تھے اس لئے ولید بن ہشام کے گرد قبائل آ آ کر جمع ہونے لگے ،نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے برقہ پر قبضہ کرکے مصر پر چڑھائی کردی، اب حاکم عبیدی کی آنکھیں کھلیں، اس نے فوج مقابلہ کے لئے بھیجی مگر شکست حاصل ہوئی، اسی طرح بار بار مصر سے فوجیں گئیں اور شکست کھا کھا کر واپس آئیں، قریب تھا کہ تمام ملک افریقیہ و مصر پر ولید بن ہشامکا قبضہ وحکومت قائم ہوجائے کہ حاکم عبیدی نے چالاکی سے اس کے بعض سرداروں کو لالچ دےکر اپنی جانب مائل کرلیا اور انہوں نے ولید بن ہشام کو دھوکا دے کر گرفتار کرادیا،نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم عبیدی نے اس کو قتل کراکر اُس کی لاش کو تشہیر کرایا اوراس طرح ۳۹۷ ھ میں اس ہنگامہ کا خاتمہ ہوا،چونکہ لوگوں کو عبیدی حکومت سے بوجہ اُس کے شیعہ ہونیکے نفرت تھی، اس لئے حاکم عبیدی نے ولید بن ہشام کی ہنگامہ آرائیوں کے دوران میں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اورسُنیوں کے دلوں سے اپنی نفرت دُور کرنے کے لئے ایک فرمان اس مضمون کا جاری کیا کہ جس شخص کا جی چاہے وہ سنی مذہب اختیار کرے اورجس کا جی چاہے شیعہ مذہب قبول کرے، اسی طرح جس کا جی چاہے اذان میں حی علی خیر العمل پکارے اور جس کا جی چاہے نہ پکارے، مذہب کے معاملے میں کسی پرکسی قسم کا تشدد نہ کیا جائے گا۔