انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حج حج کی فرضیت اسلام کے ارکان میں سے آخری رکن"حج"ہے،قرآن شریف میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ"۔ (ال عمران:۹۷) اور اللہ کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جووہاں تک پہونچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جولوگ نہ مانیں تو اللہ بے نیاز ہے سب دنیا سے۔ اس آیت میں حج کے فرض ہونے کا اعلان بھی فرمایاگیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایاگیا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں پر فرض ہے جووہاں پہونچنے کی طاقت اور حیثیت رکھتے ہوں۔ اورآیت کے آخری حصے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے حج کرنے کی استطاعت اورطاقت دی ہو اور وہ ناشکری سے حج نہ کریں(جیسے کہ آجکل کے بہت سے مالدار نہیں کرتے) تو اللہ تعالی سب سے بے نیاز اور بے پرواہے،اس لیے ان کے حج نہ کرنے سے اس کا تو کچھ نہیں بگڑے گا،البتہ اس ناشکری اورکفران نعمت کی وجہ سے یہ ناشکرے بندے خودہی اس کی رحمت سے محروم رہ جائیں گے اور ان کا انجام خدانخواستہ بہت براہوگا، رسول اللہﷺ کی ایک حدیث میں ہے کہ: "جس کسی کو اللہ نے اتنا دیا ہو کہ وہ حج کرسکے لیکن اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ خواہ وہ یہودی ہوکرمرے یا نصرانی ہوکر"۔ (ترمذی،باب ما جاءفی التغلیظ فی ترک الحج،حدیث نمبر:۷۴۰، شاملہ،موقع الإسلام) بھائیو!اگر ہمارے دلوں میں ایمان واسلام کی کچھ بھی قدر ہو اور اللہ ورسول سے کچھ بھی تعلق ہو،تو اس حدیث کے معلوم ہوجانے کے بعد ہم میں سے کسی ایسے شخص کو حج سے محروم نہ رہنا چاہیے جووہاں پہونچ سکتا ہو۔ حج کی فضیلتیں اوربرکتیں بہت سی حدیثوں میں حج کی اور حج کرنے والوں کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں یہاں ہم صرف دوتین حدیثیں ذکرکرتے ہیں،ایک حدیث میں ہے کہ: "حج اور عمرہ کے لیے جانے والے لوگ اللہ تعالی کے خاص مہمان ہیں ،وہ اللہ سے دعاکریں تواللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے، اور مغفرت مانگیں تو ان کو بخش دیتا ہے"۔ (ابن ماجہ،باب فضل دعاء الحاج،حدیث نمبر:۲۸۸۳، شاملہ،موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: جو شخص حج کرے اور اس میں کوئی فحش اور بیہودہ حرکت نہ کرے اور اللہ کی نافرمانی نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوکر واپس آئے گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بالکل بے گناہ تھا"۔ (بخاری،باب فضل الحج المبرور،حدیث نمبر:۱۴۲۴، شاملہ،موقع الإسلام) ایک اور حدیث میں ہے کہ: "حج مبرور(یعنی وہ حج جو خلوص کے ساتھ اور بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کیا گیا ہو اور اس میں کوئی برائی اور خرابی نہ ہوئی ہو تو)اس کی جزا صرف جنت ہی جنت ہے"۔ (مسند احمد بن حنبل،مسند جابر بن عبداللہ ،حدیث نمبر:۱۴۶۲۲، شاملہ،موقع الإسلام) حج کی نقد لذتیں حج کی برکت سے گناہوں کی معافی اور جنت کی نعمتیں جو حاصل ہوتی ہیں وہ تو انشاء اللہ پوری طرح آخرت میں ملیں گی،لیکن اللہ تعالی کی خاص تجلی گاہ اور اس کے انوار کے خاص مرکزبیت اللہ کو دیکھ کر اور مکہ معظمہ کے ان خاص مقامات پر پہونچ کر جہاں حضرت ابراہیم واسمعیل علیہما السلام کی اور ہمارے نبی ورسول سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص یادگاریں اب تک موجود ہیں ایمان والوں کو جولذت اور دولت حاصل ہوتی ہے وہ بھی اس دنیا میں جنت ہی کی نعمت ہے ، پھر مدینہ طیبہ میں روضۂ اقدس کی زیارت اورحضور اکرمﷺ کی مسجد شریف میں نمازیں پڑھنا اور براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر صلوٰۃ وسلام عرض کرنا،طیبہ کی گلیوں میں اوروہاں کے جنگلوں میں پھرنا، وہاں کی ہوا میں سانس لینااور وہاں کی مقدس زمین میں اور ہوا میں بسی ہوئی خوشبو سے دماغ کا معطر ہونااور حضورﷺ کو یاد کرکے شوق ومحبت میں خوش ہونا،کبھی ہنسنا اور کبھی روپڑنا،یہ وہ لذتیں ہیں جو حج کرنے والوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ پہونچ کر نقد حاصل ہوتی ہیں؛ بشرطیکہ اللہ تعالی بندے کو اس قابل بنادے کہ وہ ان لذتوں کو محسوس کرسکے ،آؤ سب دعاکریں کہ اللہ تعالی محض اپنے فضل وکرم سے یہ لذتیں اور دولتیں ہم کو نصیب فرمائے۔ اسلام کی پانچ بنیادیں اسلام کی جن پانچ بنیادی تعلیمات کا یہان تک بیان ہوا،یعنی: کلمہ،نماز،زکوٰۃ،روزہ،حج،یہ پانچوں"ارکان اسلام"کہے جاتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے،آپ نے فرمایاکہ، اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر قائم ہے: "ایک لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی شہادت دینا،دوسرے نماز قائم کرنا،تیسرے زکوٰۃ دینا،چوتھے رمضان کے روزے رکھنااورپانچویں بیت اللہ کا حج کرنا ان کے لیے جو وہاں تک پہونچ سکتے ہوں"۔ (بخاری،باب سوال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث نمبر:۴۴۸، شاملہ،موقع الإسلام) ان پانچ چیزوں کے ارکان اسلام اور بنیاد اسلام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی فرائض ہیں اور ان پر اچھی طرح عمل کرنے سے اسلام کے باقی احکام پر عمل کرنے کی بھی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم نے ان ارکان کی صرف اہمیت اورفضیلت بیان کی ہے،ان کے تفصیلی مسائل فقہ کی معتبر کتابوں میں دیکھے جائیں یا علماء امت سے دریافت کئے جائیں۔