انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ کرامؓ کے لیے دوطرفہ رضا قرآن کریم میں صحابہؓ کے لیے دوطرفہ رضا کا بیان ہے، ایک یہ کہ اللہ ان سے راضی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ اللہ سے راضی ہوگئے، ان حضرات سے اللہ کا راضی ہونا ہی کافی تھا "رِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَکْبَرْ" سے آگے اور کس مقامِ رضا کی ضرورت ہوسکتی ہے؛ لیکن اللہ رب العزت نے ان نفوسِ قدسیہ کے ایمان واخلاص کی اس طرح شہادت دی کہ محبتِ خداوندی میں ان حضرات کی طبیعت شریعت ہوچکی تھی، اللہ اور رسول کی ہربات ان کے لیے ان کی اپنی خوشیوں میں ایک نیا اضافہ ہوتا تھا وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہربات میں دل وجان سے راضی تھے، انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہے تودوطرح کی حالتیں پیش آتی ہیں کچھ لوگ جوانمرد اور باہمت ہوتے ہیں وہ بلاتامل ہرطرح کی مصیبتیں جھیلتے ہیں؛ لیکن ان کو جھیلنا، جھیل لینا ہی ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہوتی کم مصیبتیں نہ رہی ہوں، عیش راحت ہوگئی ہوں؛ کیونکہ مصیبت بہرِحال مصیبت ہے، باہمت آدمی کڑواگھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس ضرور کرے گا؛ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے؛ بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ کہنا چاہیے، ان میں صرف ہمت وجوانمردی ہی نہیں؛ بلکہ عشق وشیفتگی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے، وہ مصیبتوں کومصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے؛ بلکہ عیش وراحت کی طرح ان سے لذت وسرور حاصل کرتے ہیں، راہِ محبت کی ہرمصیبت ان کے عیش وراحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے؛ اگراس راہ میں کانٹوں پر لوٹنا پڑے توکانٹوں کی چبھن میں انہیں ایسی راحت ملتی ہے جوکسی کوپھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی؛ حتی کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں؛ اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان کے لیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ سب کچھ کسی کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بے خبر نہیں، عیش وسرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی، یہ بات سننے میں عجب معلوم ہوتی ہوگی؛ لیکن فی الحقیقت اتنی عجیب حالت نہیں؛ بلکہ انسانی زندگی کے معمولی داردات میں سے ہے اور عشق ومحبت کا مقام توبہت بلند ہے، بوالہوسی کا عالم بھی ان داردات سے خالی نہیں۔ سابقون الاوّلون کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا؛ ہرشخص جوان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہِ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں؛ بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کرڈالیں، ان میں سے جولوگ اوّل دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب وروز کی جانکاہیوں اور قربانیوں کے پورے ۲۳/برس گزرگئے؛ لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہوں؛ انہوں نے مال وعلائق کی ہرقربانی اس جوش ومسرت کے ساتھ کی؛ گویا دنیا جہان کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تواس طرح خوشی خوشی گردنیں کٹوادیں؛ گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں موت میں تھی۔ (ترجمان القرآن:۲/۱۴۳)