انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شجاع بن الولیدؒ نام ونسب شجاع نام،ابوبدرکنیت،والد کا اسم گرامی ولید اورجدامجد کا قیس تھا(تاریخ بغداد:۹/۲۴۷)کوفہ کے خاندان بنو کندہ کی ایک شاخ سکون بن اشرس سے نسبی تعلق رکھتے تھے،اسی باعث سکونی اورکوفی کی نسبتوں سے شہرت پائی۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۵) وطن ان کا آبائی وطن کوفہ تھا اوروہیں پیدا بھی ہوئے،لیکن پھر بغداد میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ (تاریخ بغداد:۹/۲۴۸) فضل وکمال شیخ شجاع کو نہ صرف دنیائے علم وفن ہی میں ممتاز مقام حاصل تھا ؛بلکہ وہ عبادت وریاضت اورتقویٰ وصالحیت میں بھی بلند مرتبہ تھے، ابن ناصر الدین کہتے ہیں کہ: کان ثقۃ ورعاً عابداً متقناً (شذرات الذہب:۲/۱۲) وہ ثقہ،متقی اورعابد تھے۔ حافظ ذہبی رقمطراز ہیں: کان من صلحاء المحدثین وعلمائھم (العبر:۱/۳۴۶) وہ صلحاء محدثین اورعلماء میں تھے۔ شیوخ وتلامذہ انہوں نے جن شیوخ حدیث سے استفاضہ کیا ان میں اسماعیل بن ابی خالد،یحییٰ بن سعید الانصاری،سلیمان بن مہران الاعمش موسیٰ بن عقبہ،ہاشم بن ہاشم بن عتبہ، عمر بن محمد،ابو خالد الدولائی،زیاد بن خثیمہ ،زہیر بن معاویہ،لیث بن سعد،مغیرہ بن مقسم،عطاء بن السائب،عبیداللہ بن معاویہ کے نام خصوصیت سے لائق ذکر ہیں (تہذیب التہذیب:۴/۳۱۲)اوران کے صاحبزادے ولید کے علاوہ مسلم بن ابراہیم ،یحییٰ بن ایوب، یحییٰ بن معین،احمد بن حنبل،ابو عبید قاسم بن سلام،زہیربن حرب، علی بن المدینی،محمد بن اسحاق الصاغانی،محمد بن عبیداللہ بن محمد بن ایوب المحرمی،سعدان بن بصر، اسحاق بن راہویہ،ان کے نامور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ (تاریخ بغداد:۹/۳۴۷) پایہ مرویات امام شجاع کی مرویات کے بارے میں علماء کافی اختلاف رکھتے ہیں،لیکن ان کے صلاح وتقویٰ پر تقریباً سب کو اتفاق ہے،مروزی کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد ابن حنبل سے دریافت کیا، کیا ابو بدر شجاع ثقہ ہیں؟انہوں نے فرمایا: ارجوا ان یکون سدوقاحابس الصالحین (میزان الاعتدال:۱/۴۴۲) مجھے امید ہے کہ وہ صدوق ہوں گے اس لئے کہ انہوں نے صلحاء کی صحبت اٹھائی ہے۔ امام احمد کا ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ: کان شیخاً صالحاً صدوقاً (خلاصہ تذہیب :۱۶۳) شیخ شجاع صالح اورصدوق تھے۔ علاوہ ازیں ابن معین،ابوزرعہ اور عجلی بھی ان کی روایات کو قابلِ حجت اورثقہ قرار دیتے تھے،ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا نمایاں ذکر کیا ہے؛لیکن محدث ابو حاتم وغیرہ کی رائے ہے کہ وہ قبولِ روایت کے معاملہ میں غیر محتاط تھے۔ اس لیےان کی مرویات کوحجت بنانا صحیح نہیں،مگر بایں ہمہ ابو حاتم معترف ہیں کہ: عندہ عن محمد بن عمراحادیث صحاح (میزان الاعتدال:۱/۲۴۲) ان کے پاس محمد بن عمر کی بہت سی صحیح احادیث کا ذخیرہ تھا۔ کثرتِ عبادت ان کی عبادت وریاضت کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ امام سفیان ثوری جیسے ثقہ بزرگ بھی ان الفاظ میں اس کی شہادت دیتےہیں: لیس بالکوفۃ اعبدمنہ (شذرات :۲//۱۲) کوفہ میں ان سے بڑا عابد نہ تھا۔ حافظ ابن حجرؒ ناقل ہیں کہ وہ ورع وتقویٰ میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے اورکثرت سے نمازیں پڑھتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۱۴) وفات ماہ رمضان المبارک ۴۰۴ھ میں بایامِ خلافت مامون الرشید وفات پائی۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۶)