انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** استیصالِ برامکہ کی حقیقتِ اصلیہ حکومت وسلطنت ایسی چیز ہے کہ اس کے لیے بھائی بھائی کا اور باپ بیٹے کا دشمن بن جاتا ہے، سلطنتوں کی تاریخیں اس پرشاہد ہیں، عباسیوں نے بھی جس شخص کواپنی حکومت وسلطنت کے لیے مضر محسوس کیا اس کوبلادریغ قتل کردیا، خلیفہ منصور نے ابومسلم کوجب دیکھا کہ وہ حکومت وسلطنت کواپنے قبضہ میں لانا چاہتا ہے توفوراً اس کا قصہ پاک کردیا، بادشاہوں کی اس عادت اور روشِ خاص سے کبھی کبھی اُن کے مصاحب اور اہلِ کار ناجائز فائدہ بھی اُٹھالیا کرتے ہیں، یعنی جس شخص کووہ بادشاہ کے ہاتھ سے نقصان پہنچوانا چاہتے ہیں، اس کی نسبت عموماً بغاوت ہی کا الزام ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں، منصور کا حاجب یعنی افسر باڈی گارڈ ربیع بن یونس تھا، جوحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام کیسان کی اولاد میں سے تھا اور منصور کا سب سے بڑا معتمد تھا منصور نے اُس کواپنا مصاحب ومشیر بھی بنارکھا تھا، منصور کے زمانے میں وہ بہت بڑا اختیار واقتدار رکھتا تھا، ابومسلم کے قتل کا مشورہ دینے والا ربیع ہی سمجھا جاتا تھا، خالد بن برمک کی جگہ منصور نے ابوایوب کووزیربنایا تھا؛ لیکن سنہ۱۵۳ھ میں ربیع بن یونس کووزیر بنایا؛ مگریہ حاجب ہی کے لقب سے مشہور رہا، منصور کی وفات کے وقت اسی نے خلافتِ مہدی کی بیعت کا اہتمام کیا، مہدی کے زمانے میں ربیع اپنے عہدۂ وزارت پرقائم رہا؛ مگرچونکہ وہ حاجب کے لقب سے مشہور تھا اس لیے مہدی نے اس کے ساتھ ابوعبداللہ معاویہ بن یسار کوبھی وزارت کا عہدہ دے کرسلطنت کے اکثر صیغے اُس کے سپرد کردیئے، ربیع نے چند روز إے بعد ابوعبداللہ کومعزول ومعتوب کراکرقید کرادیا، ابوعبداللہ کی جگہ مہدینے یعقوب بن داؤد کومامور فرمایا، یعقوب بن داؤد بھی چند روز کے بعد معزول ومعتوب ہوا، اس کے بعد مہدی نے فیض بن ابی صالح کوجونیشاپور کے ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، وزار ت کا عہدہ عطا کیا؛ غرض مہدی کے زمانہ میں ربیع بن یونس نے کسی وزیر کوکامیاب ومطمئن نہ ہونے دیا، حقیقتاً وہی وزارت کا مالک رہا، مہدی کے بعد ہادی کازمانہ شروع ہوا توربیع بن یونس کا اقتدار اور بھی ترقی کرگیا؛ کیونکہ ہادی نے وزارت کے تمام اختیارات اس کوسپرد کردیئے تھے۔ اُمورِ سلطنت سے خیزران کے دخل کودور کرنا بھی ربیع کی تحریک کا نتیجہ تھا، ہادی اور ربیع کی وفات قریب ہی قریب واقع ہوئی، ربیع کے بیٹے فضل بن ربیع کوتوقع تھی کہ مجھ کوضرور کوئی بڑا عہدہ ملے گا؛ لیکن ہارون نے تختِ خلافت پربیٹھتے ہی سلطنت کا تمام وکمال انتظام یحییٰ بن خالد کے سپرد کردیا، یحییٰ بن خالد، ابومسلم کے گروہ کا آدمی تھا، جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، وہ ربیع بن یونس سے سخت عداوت رکھتا تھا؛ کیونکہ ربیع ایک طرف قتل ابومسلم کا محرک تھا تودوسری طرف یحییٰ کے باپ خالد بن برمک کونفرت کی نظر سے دیکھنے اور وزارت سے معزول کراکر اپنے دوست ابوایوب کواس کی جگہ مقرر کرانے والا تھا، یحییٰ بن خالد نے فضل بن ربیع کوکوئی عہدہ نہ دلوایا اور حاجب کے عہدے پرقائم رکھ کراس عہدے کے تمام اختیارات چھین کرفضل بن ربیع کوعضومعطل بنادیا، اب غالباً یہ بات بآسانی سمجھ میں آجائے گی کہ خاندانِ برمک اور فضل بن ربیع کی عداوت بہت پرانی اور مستحکم عداوت تھی، جوں جوں برمکیوں کا عروج ہوتا گیا اور ان کا اقتدار بڑھتا گیا، فضل بن ربیع کی عداوت اور حسد نے ضرور ترقی کی مگروہ اس لیے کہ ہارون کواس خاندان پرحد سے زیادہ اعتماد تھا، اُن کا کچھ نہیں بگاڑسکا؛ ایسی حالت میں فضل بن ربیع کے لیے ایک ہی راہ عمل تھی کہ وہ برامکہ کی بے وفائی، غداری اور بغاوت کے ثبوت تلاش کرے اور اگرکوئی ایسی بات مل جائے توخلیفہ کواُن سے بدگمان بناکر اپنا مقصد دلی حاصل کرے، برمکی چونکہ تجربہ کار، ہوشیار اور بہت چوکس رہنے والے تھے، اس لیے فضل بن ربیع کوکوئی موقع نہیں مل سکتا تھا کہ وہ ان کومتہم کرے؛ لیکن وہ ان کے تمام اعمال وافعال کوغور وتجسس کی نگاہ سے ضرور مطالعہ کرتا رہتا تھا، برمکیوں نے اپنی سخاوت اور زرپاشی کے ذریعہ سے اپنے اس قدر ہمدرد ہوا خواہ بنالیے تھے کہ فضل بن ربیع اپنے لیے کوئی راز دار بھی تلاش نہیں کرسکتا تھا، ہارون الرشید اس کے قدیمی وخاندانی حقوق کومدنظر رکھ کرکوئی عہدہ سپرد کرنا چاہتا بھی تھا؛ مگراس کی ماں خیزران بھی چونکہ فضل اور اس کے باپ ربیع سے ناراض تھی اور اس ناراضی میں یحییٰ اس کا شریک تھا؛ لہٰدا خیزران نے بیٹے کواس ارادے سے باز رہنے کی تاکید کی، جب خیزران کا سنہ۱۷۴ھ میں انتقال ہوگیا توہارون نے فضل بن ربیع کوحساب کتاب کے دفتر کا مہتمم بنادیا اور اب فضل بن ربیع کوکسی قدر پہلے سے زیادہ رسوخ حاصل ہوگیا۔ یحییٰ بن عبداللہ جب ویلم سے فضل بن جعفر کے ساتھ آئے تھے توہارن الرشید نے عہد نامہ لکھ دینے کے باوجود ان کوقید کرنا چاہا اور اس معاملہ میں اوّل بعض فقہا سے فتویٰ حاصل کیا، یہ خبر سن کربرمکیوں نے یحییٰ بن عبداللہ کے موافق کوششیں اور خلیفہ کی خدمت میں سفارشیں کیں؛ کیونکہ وہ ابومسلم خراسانی کے عقیدے پرقائم اور اہلِ بیت کے درپردہ وہ حامی ومددگار تھے، ہارون نے جعفر بن یحییٰ کی نگرانی میں یحییٰ بن عبداللہ کو دے دیا اور کہہ دیا کہ تم ہی ان کواپنے پاس نظربند رکھو، جعفر نے یحییٰ بن عبداللہ کوبڑی عزت وآرام سے اپنے یہاں رکھا۔ سنہ۱۸۰ھ میں جب ہارون الرشید نے علی بن عیسیٰ کوخراسان کا گورنربناکر بھیجا تویحییٰ بن خالد نے جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے علی کے اس تقرر کی مخالفت کی یہ غالباً ہارون الرشید کا پہلا کام تھا جواس نے یحییٰ بن خالد کی منشاء اور خواہش کے خلاف کیا، یحییٰ اور اس کے بیٹے اور اس کے رشتہ دار چونکہ تمام ملکوں پرچھائے ہوئے تھے؛ لہٰذا برمکیوں نے علی بن عیسیٰ کوخراسان میں چین سے نہ بیٹھنے دیا، یحییٰ کے بیٹے موسیٰ بن یحییٰ نے اپنے میسرشدہ ذرائع کوکام میں لاکربغاوت پربغاوت اور سرکشی پرسرکشی کرانی شروع کردی، علی بن عیسیٰ کواتفاقاً اس کا حال معلوم ہوگیا کہ خراسان میں یہ بدامنی کس کے اشارے سے ہورہی ہے، اس نے ہارون الرشید کی خدمت میں یحییٰ بن موسیٰ کی شکایت لکھ کربھیجی اس شکایت اور یحییٰ کی اُس مذکورہ مخالفت نے مل کرہارون الرشید کے دل میں ایک خیال اور شبہ پیدا کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ جب برمکیوں کے اہتمامِ خاص سے علی بن عیسیٰ کی نسبت یہ خبریں دارالخلافت میں پہنچنی شروع ہوئیں کہ علی بن عیسیٰ بغاوت پرآمادہ ہے اور خلیفہ کے خلاف تیاریاں کررہا ہے توہارون الرشید نے کسی امیریاسپہ سالار کواس طرف نہیں بھیجا؛ بلکہ بذاتِ خود فوج لے کرخراسان کی طرف روانہ ہوا اور رَے میں پہنچ کرمقام کیا، یہ سنہ ۱۸۶ھ کا واقعہ ہے، ابھی تک ہارون الرشید کومحض شبہ ہی شبہ تھا اور وہ برمکیوں کی نسبت کوئی بدگمانی نہیں رکھتا تھا، اُس کو یہ تومعلوم ہوچکا تھا کہ علی بن عیسیٰ کے خراسان میں رہنے کوبرامکہ ناپسند کرتے ہیں، جب علی بن عیسیٰ نے موسیٰ بن یحییٰ اور یحییٰ بن خالد کے دوسرے بیٹوں اور رشتہ داروں کی شکایت لکھ کربھیجی کہ یہی لوگ خراسان میں بدامنی پیدا کررہے ہیں توہارون کی گہری توجہ مسئلہ خراسان کی طرف منعطف ہوگئی، اُس نے برامکہ سے اس بات کوبالکل پوشیدہ رکھا اور بارمکہ کویہ نہ معلوم ہوسکا کہ خلیفہ ہماری طرف کن گہری متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ انھوں نے علی کی شکایتوں کی عرضیاں ہارون کے پاس بھجوائیں؛ اگر ان کویہ بات محسوس ہوجاتی کہ ہماری طرف شبہ کی نگاہیں پڑرہی ہیں تووہ ہرگز عرضیاں نہ بھجواتے اور علی بن عیسیٰ کوبغاوت سے متہم نہ کراتے، اب جب کہ ہارون رَے میں پہنچا اور علی بن عیسیٰ نیاز مندانہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تواس نے تنہائی میں وہ تمام باتیں جوخراسان میں اس کومعلوم ومحسوس ہوئی تھیں، ہارون کی خدمت میں گذارش کیں اور ظاہر کیا کہ تمام ملکِ خراسان اور اس کے متعلقہ وہمسایہ صوبے درحقیقت برمکیوں کی مٹھیوں میں ہیں اور وہ نہایت اہتمام واحتیاط کے ساتھ ابومسلم خراسانی کے خون کا بدلہ لینے کی تیاری کرچکے ہیں، اُن باتوں کوسن کرہرشخص اندازہ کرسکتا ہے کہ ہارون کے دل پرکیا گذری ہوگی اور کس طرح اُس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہوگی، ایک طرف برمکیوں کا اقتدار واختیار اس کی آنکھوں کے سامنے تھا، دوسری طرف اس نے یہ باتیں سنیں؛ چنانچہ علی بن عیسیٰ کی اس نے ہمت افزائی کرکے مرَو کی جانب رخصت کردیا اور خود اپنے قلبی تأثرات کواحتیاط کے ساتھ پوشیدہ رکھ کرواپس ہوا، علی بن عیسیٰ کے رُخصت ہونے کے بعد اب فضل بن ربیع کوموقع ملا اور اس نے یہ وحشت انگیز خبر ہارن کے گوشِ گذار کی کہ جعفر برمکی نے یحییٰ بن عبداللہ کورہا کردیا ہے اور وہ خروج کی تیاریوں کے لیے کہیں چلے گئے ہیں، ہارون نے جعفر سے برسبیل تذکرہ یحییٰ بن عبداللہ کا حال دریافت کیا، جعفر نے کہا کہ وہ میرے پاس بدستور نظربند ہیں، ہارون نے کہا کہ کیا تم یہ بات قسمیہ کہہ سکتے ہو؟ یہ سنتے ہی جعفر حواس باختہ سا ہوگیا اور سمجھ گیا کہ راز افشا ہوچکا ہے، اس نے سنبھل کرکہا کہ یحییٰ بن عبداللہ کومیرے زیرنگرانی رہتے ہوئے عرصہ دراز گذرچکا تھا اور مجھ کوان کی طرف سے کسی قسم کے خطرہ کا اندیشہ نہ رہا تھا، اس لیے میں نے اُن کے رہا کردینے میں کوئی حرج نہیں دیکھا، ہارون کے لیے یہی سب سے نازإ موقع تھا، اُس وقت اگروہ کسی ناراضی کا اظہار کرتا توپھربرامکہ ہرگز ہرگز اس کے قابو میں نہیں آسکتے تھے اور وہ فوراً اپنی حفاظت کے لیے وہ تمام سامان کام میں لے آتے جواب تک مادی اور معنوی اعتبار سے وہ فراہم کرچکے تھے، ہارون کے لیے برامکہ کا مقابلہ ہرگز آسان نہ تھا اور ممکن تھا کہ وہ ہارون کوسانس لینے اوور اُف کرنے کا بھی موقعہ نہ دیتے؛ ککیونکہ خاص یحییٰ بن خالد کے بیٹوں اور پوتوں میں پچیس آدمی جوصاحب سیف وقلم تھے ہارون کے محل میں مختلف حیثیتوں اور مختلف بہانوں سے ہمہ وقت موجود رہتے تھے، تمام ملکوں کے انتظام واہتمام کی کنجی برامکہ کے ہاتھ میں تھی۔ فوجوں کے سردار سب اُن کے آوردے اور اُنھیں کے فرماں بردار تھے، انتظامی افسر اور دفتروں کے اعلیٰ عہدے دار سب اُنہیں کے رکھے ہوئے تھے، علماء وفقہاء وصوفیاء بھی اُن کی گرفت سے باہر نہ تھے؛ کیونکہ وہ اُن لوگوں کی بڑی حدمت کرتے اور اُن کوزیرِبار احسان رکھتے تھے، شعراء سب انھیں کے قصیدہ خواں تھے، تمام رعایا میں اُن کی سخاوت کی شہرت تھی اور اس لیے وہ مغرب سے لے کرمشرق تک محبوبِ خلائق بن چکے تھے، یہ وہ عظیم الشان تیاریاں تھیں کہ میدان میں نکل کرایک ہارون کیا کئی ہارون بھی شاید کامیاب نہ ہوتے؛ لیکن ہارون نے اپنے آپ کوسنبھالا اور جعفر سے یحییٰ بن عبداللہ کے رہا ہونے کا حال سن کرنہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ میں نے اُس وقت ویسے ہی اتفاقیہ دریافت کیا تھا تم نے اُس کوچھوڑ دیا، بہت ہی اچھا کیا، میں خود اُس وقت تم سے یہی کہنے والا تھا کہ یحییٰ بن عبداللہ کورہا کردو۔ اب ہرشخص غور کرسکتا ہے کہ یحییٰ بن عبداللہ جیسے شخص کا رہا ہونا ہارون الرشید کے لیے بجلی کے ٹوٹ پڑنے سے کم نہ تھا، علویوں کے خروج سے عباسی اب تک مطمئن نہ ہونے تھے اور یحییٰ بن عبداللہ کوئی معمولی شخص نہ تھا، جس کے آزاد ہونے کو ہارون معمولی واقعہ سمجھتا؛ بہرِحال ہارون نے اس موقع پرفتح حاصل کی اور اپنی دلی حالت کو چھپایا؛ اسی زمانے میں یہ اتفاقی واقعہ پیش آیا کہ جعفر کے یہاں کسی ضیافت کے موقع پراکثراراکینِ سلطنت اور ایرانی النسل سردار موجود تھے، اسی جلسہ میں کسی شخص نے کہا کہ ابومسلم نے کیسی قابلیت سے سلطنت کوایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل کردیا، جعفر نے یہ سن کرکہا کہ یہ کوئی زیادہ قابل تعریف کام نہ تھا؛ کیونکہ چھ لاکھ آدمیوں کا خون بہاکر ابومسلم نے یہ کام انجام دیا، قابلیت اور خوبی کی بات تو یہ ہے کہ سلطنت ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں تبدیل ہوجائے اور کسی کوکانوں کان خبر نہ ہو، اس جلسہ میں کوئی ایسا شخص بھی موجود تھا جس نے یہ تمام گفتگو ہارون الرشید کوسنائی اور اس کویقین ہوگیا کہ جعفر برمکی خود ایسا کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد اس نے برامکہ کوغافل کرنے کے لیے اپنے بیٹے کی ولی عہدی اور تینوں بیٹوں کے درمیان ملکوں کے تقسیم کرنے کی دستاویز مرتب کرنے کا کام شروع کردیا، یہ اس قسم کے کام تھے کہ کوئی خلیفہ اتنی بڑی سازش سے مطلع ہوکر اُن کاموں کوہرگز شروع نہیں کرسکتا تھا؛ یہی ہارون کا سب سے بڑا دھوکہ تھا جواُس نے برامکہ کودیا، اِن سب باتوں میں وہ زیادہ وقت بھی صرف نہیں کرسکتا تھا اور تادیر برامکہ کوغافل بھی نہیں رکھ سکتا تھا؛ چنانچہ سنہ۱۸۶ھ کے آخری مہینوں میں وہ رَے سے واپس ہوا، مؤتمن کی ولی عہدی کی بیعت لی، تقسیم نامہ لکھا، امین اور مامون سے عہد نامے لکھا کردستخط کرائے، حج کے لیے گیا، خانہ کعبہ میں اس عہد نامہ کولٹکایا، لوگوں میں خیرات کی، مدینہ منورہ میں آکر انعامات وخیرات تقسیم کرکے واپس ہوا اور مقامِ انبار میں پہنچ کریکا یک محرم سنہ۱۸۷ھ کی آخری تاریخ وقتِ شب جس کی صبح کویکم ماہِ صفر تھی، جعفر کوقتل کرکے اس کے باپ اور بھائیوں کوقید کرلیا اور کسی کوکوئی حرکت کرنے کا مطلق موقع نہیں دیا۔ مقامِ انبار میں پہنچ کرہارون الرشید نے ایک روز رات کے وقت اپنے حاجب مسرور کوبلوایا اور کہا کہ سرہنگوں کی ایک قابل اعتماد جماعت کولے کراسی وقت جعفر کے خیمہ میں جاؤ اور اس کوخیمہ کے دروازے پرطلب کرکے اُس کا سراُتار لاؤ، مسرور اس حکم کوسن کرسہم گیا؛ مگرہارون نے سختی سے کہا کہ میرے اس حکم کی فوراً بلاتوقف تعمیل ہونی چاہیے، مسرور اسی وقت رُخصت ہوا اور جعفر کے خیمہ میں جاکر اُس کا سراُتارلایا، اُسی شب میں خلیفہ ہارون نے جعفر کے بھائی اور باپ فضل ویحییٰ کوبھی گرفتار کرکے قید کردیا اور فوراً ایک حکمِ عام جاری کرکے کہا کہ جعفر وفضل ویحییٰ کی تمام جائداد جہاں کہیں ہو ضبط کرلی جائے، اس کے بعد برامکہ خاندان کے ہرایک متنفس کوگرفتار وقید کرلیا گیا، برمکیوں کے تمام آوردوں کوولایتوں کی حکومت اور ذمہ داری کے عہدوں سے معزول کردیا گیا، اس طرح ہارون الرشید نے ایک ہی رات میں برمکیوں کے خطرہ کومٹاکراطمینان حاصل کیا اور اس کام کواس خوبی اور اہتمام کے ساتھ کیا کہ کسی کوبھی کان ہلانے کا موقعہ نہ ملا، یحییٰ بن خالد کے بھائی محمد بن خالد برمکی کی وفاداری پرہارون الرشید کواعتماد تھا اور ممکن ہے کہ محمد بن خالد ہی نے بعض راز کی باتوں سے ہارون الرشید کوآگاہ کیا ہو، اس لیے ہارون الرشید نے محمد بن خالد کوگرفتار وقید نہیں کیا، اُدھر ہارون الرشید کے خاندان کا ایک معزز رکن عبدالملک بن صالح بن علی بن عبداللہ بن عباس جورشتہ میں ہارون الرشید کا دادا ہوتا تھا، برمکیوں کی سازش میں شریک تھا جس کوخلافت کی توقع دلائی گئی تھی، برمکیوں کوقید کرنے کے بعد ہارون الرشید نے عبدالملک بن صالح کوبھی قید کردیا، عبدالملک بن صالح کے بیٹے عبدالرحمن نے اپنے باپ کے خلاف گواہی دی تھی، عبدالملک مامون الرشید کے زمانے تک قید رہا، مامون نے اپنے عہد حکومت میں اس کوقید سے آزاد کیا، ابراہیم بن عثمان بن نہیک بھی برمکیوں کا شریک تھا؛ لہٰذا اس کوبھی قتل کیا گیا، یحییٰ برمکی نے سنہ۱۹۰ھ میں اور فضل برمکی نے سنہ۱۹۳ھ میں بہ حالتِ قید وفات پائی۔ برامکہ چونکہ لوگوں کوروپیہ بے دریغ دیتے تھے اور شعراء کی خوب قدردانی کرتے تھے؛ لہٰدا اُن کی بربادی کے بعد عام لوگوں کوجواصلیت سے ناواقف تھے، ملال ہوا اور انہوں نے ہارون الرشید کوظالم قرار دیا، شعراء نے اُن کے مرثیے لکھے، قصہ گویوں نے ان کی سخاوت اور خوبیوں کومبالغہ کے ساتھ بیان کیا ہارون الرشید نے برامکہ کے حالات کوافشا نہیں ہونے دیا اور نہایت سختی کے ساتھ احکام جاری کیے کہ کوئی شخص برامکہ کا نام تک نہ لے؛ لہٰذا خود ہارون الرشید کے زمانے میں بھی عام لوگ قتلِ برامکہ کے صحیح اسباب کومعلوم نہ کرسکے؛ اگربرامکہ کی غداری اور سازش کا حال معلومِ عوام ہوجاتا تواس میں ہارون الرشید اور سلطنتِ عباسیہ کی ہوا خیزی ہونے کے علاوہ فوراً نئی سازشوں کے پیدا اور سرسبز ہونے کا قوی احتمال تھا، ہارون الرشید کی یہ بھی کمال دوراندیشی تھی کہ اس نے برامکہ کے متعلق کوئی بیان شائع نہیں کیا، اس طرح ہارون کی ہیبت دلوں پرطاری اور لوگوں کی بدستور حیرت جاری رہی اور یہی سلطنتِ عباسیہ کے لیے مناسب بھی تھا؛ اگربرامکہ کی بربادی کے متعلق عام طور پررائے زنی کا موقعہ دے دیا جاتا توظاہر ہے کہ برامکہ کے ہواخواہوں اور مداحوں کی تعداد ہرجگہ عوام میں زیادہ تھی ان لوگوں کی زبانیں کھل جاتیں توکرۂ ہوائی یقیناً سلطنتِ عباسیہ کے خلاف پیدا ہوجاتا، اس موقع پربجز اس تدبیر کے جوہارون الرشید نے استعمال کی اور کوئی تدبیر مفید نہیں ہوسکتی تھی۔ برامکہ چونکہ محبت اہلِ بیت اور خیرخواہِ آل ابی طالب ہونے کا دعویٰ کرتے تھے؛ لہٰذا اُن کے قتل وتباہی کوآلِ ابی طالب نے اپنا نقصان وزیان محسوس کیا اور آج تک بھی شیعانِ علی رضی اللہ عنہ اور شیعانِ حسین برامکہ کے قتل وتباہی پرنوحہ زنی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور اُن کی علم دوستی وعالم پروری بڑے مبالغۃ اور رنگ آمیزی کے ساتھ بیان کی جاتی ہے؛ حالانکہ اس مجوسی النسل خاندان نے دینِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی غیرمعمولی اور اہم خدمت انجام نہیں دی، ان کے قتل وبربادی کے اسباب بالکل عیاں اور روشن ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اپنی سلطنت کے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہارون الرشید نے برمکیوں کوتباہ کردیا، جس طرح ہرایک بادشاہ اپنی بادشاہت کے بچانے کے لے دشمنوں کوبرباد کردیا کرتا ہے، اُس نے جہاں برامکہ کوقید کیا، اپنے دادا کوبھی قید کردیا؛ کیونکہ اس کا جرم بھی اسی قسم کا تھا، ایسی صاف بات میں دورازکار اور بے سروپا باتوں کو شامل کرنے کی مطلق ضرورت نہیں۔