انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قادیانیوں کا انکارِ حدیث قادیانی لوگ علمی مباحث میں جب کبھی حدیث سے استدلال کرتے ہیں توان کی بھی یہ کوشش برسبیل الزام ہوتی ہے؛ خود وہ حدیث کوکوئی اہمیت نہیں دیتے، وہ یہ انداز محض اس لیئے اختیار کرتے ہیں کہ مسلمان حدیثِ نبوی کے قائل ہوتے ہیں اور وہ اُسے اپنے لیئے خزانہ اعتماد سمجھتے ہیں اور علم وعمل کی سند جانتے ہیں؛ ورنہ جہاں تک قادیانیوں کا اپنا تعلق ہے وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی اس پوری اُمت کے لیئے حکم بن کرآیا ہے اور اب حدیث وہی قابل قبول ہے جسے وہ صحیح قرار دے اور وہ حدیث ضعیف ہے جسے وہ ناقابل قبول ٹھہرائے، ان کا یہ عقیدہ مرزا غلام احمد کی ایک تحریر میں اس طرح مرقوم ہے: "اورجوشخص حکم ہوکرآیا ہو اس کواختیار ہے حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کوچاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کوچاہے خدا سے علم پاکر رد کردے (حاشیہ تحفہ گولڑویہ:۱۰) میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں؛ بلکہ قرآن اور وحی ہے جومیرے پرنازل ہوئی؛ ہاں! تاکیدی طور پرہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جوقرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کوہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں"۔ (ضمیمہ نزولِ مسیح:۳۰) اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ معتزلہ، شیعہ اور قادیانیوں کے اختلافات عام مسلمانوں سے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں آنحضرتﷺ کی ذاتِ گرامی کے حجت اور سند ہونے پر یہ پھربھی متفق ہیں، حدیث کے ثبوت اور عدم ثبوت پر توان میں اختلاف ہوسکتا ہے، کسی حدیث کے منسوخ ہونے یانہ ہونے میں بھی ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے؛ لیکن حجیت پیغمبرپر ان لوگوں نے بھی عام مسلمانوں سے کہیں اختلاف نہیں کیا، حضرت امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) فرماتے ہیں: "اگربالفرض کسی خاص مسئلہ کے متعلق کسی کے لیئے یہ کہنا جائز ہوتا کہ اس پر مسلمانوں کا ہمیشہ اجماع رہا ہے توخبر واحد کی حجیت کے لیئے بھی میں یہ لفظ کہہ لیتا؛ مگراحتیاط کے خلاف سمجھ کراتنا پھر بھی کہتا ہوں کہ میرے علم میں فقہاء مسلمین میں کسی کا اس میں اختلاف نہیں"۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۷۶) قادیانی غیرمسلم ہیں،شیعہ کے عوام پرگوغیرمسلم ہونے کا فتوےٰ نہیں؛ تاہم یہ ضرور ہے اثنا عشری شیعہ علماء اسلامی صفوں میں کچھ وزن نہیں رکھتے، ان کے جمہور مسلمانوں سے اختلافات اُصولی اور بنیادی ہیں، فروعی اور صرف مسلکی نہیں، اتنے اصولی اختلافات کے باوجود یہ لوگ بھی کھلم کھلا حدیث کا انکار نہیں کرسکے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ توحید کے بعد اسلام کا سب سے بڑا نکتہ اتفاق یہ ہے کہ پیغمبر کی علمی وعملی آقائی اور سیادت کسی پہلو سے بھی محل بحث نہ بننے پائے؛ رہے معتزلہ توان کا اعتزال اس دور میں مستقل نہیں رہا، شیعیت اور نیچریت میں جذب ہوچکا ہے، شیعہ حضرات ائمہ اہلِ بیت کے نام سے معتزلہ کی عقل پسندی کا ساتھ دیتے ہیں اور نیچری حضرات قانونِ فطرت اور کائنات کی عادتِ عامہ کے سہارے ذخیرۂ احادیث کی اخبار احاد کا انکار کرتے ہیں۔ مستشرقین نے بھی اس پہلو سے صف اسلام میں بہت انتشار پیدا کیا ہے، حدیث سے اعتماد اُٹھانے میں شک کے کانٹے دور تک بکھیرے، گولڈ زہیر اور مسٹرشاٹ نے اس معرکے میں اپنی عمریں صرف کرڈالیں اور عرب ممالک میں حدیث کے خلاف ہرطرف تشکیک کی راہیں کھول دیں __________ الحمد للہ کہ ان ممالک میں جامعہ ازہر اور سعودی عرب کے بعض علماء نے اس محاذ پر کام کیا ہے اور اس فتنے کا پوری طرح سدباب کیا ہے، برصغیر پاک وہند براہِ راست برطانوی عملداری میں تھا یہاں ان لوگوں کو کام کرنےکے بہت مواقع میسر آئے، عربی زبان نہ جاننے کے باعث بڑے بڑے مفکرین اُن سے متأثر ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ فتنہ نکارِ حدیث جواور کسی جگہ اپنی جڑیں زیرِزمین نہ لے جاسکا تھا پاک وہند میں الحاد کی پوری توانائی اور کم علمی کی پوری ڈھٹائی سے جدید طبقوں میں اپنا پرچم لہرانے لگا __________ سوہم یہاں صرف اسی علاقے کے منکرینِ حدیث کا ذکر کریں گے۔