انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عیسائیوں کا امان نامہ آپ مقام جابیہ میں مقیم ہوئے یہیں رؤسابیت المقدس آپ کی ملاقات کو حاضر ہوئے اور عہد نامہ آپ نے اپنے سامنے ان کو لِکھوادیا۔ "یہ وہ امان نامہ ہے جو امیر المومنین عمرؓ نے ایلیا والوں کو دیا ہے،ایلیا والوں کی جان مال،گرجے،صلیب،بیمار،تندرست سب کو امان دی جاتی ہے اورہر مذہب والے کو امان دی جاتی ہے،ان گرجاؤں میں سکونت نہ کی جائے گی اورنہ وہ ڈھائے جائیں گے یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں اورمالوں میں کسی قسم کی کمی کی جائے گی،نہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تشدد کیا جائے گا اورنہ ان میں سے کوئی کسی کو ضرر پہنچائے گا اور ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے اور ایلیا والوں پر فرض ہے کہ وہ جزیہ دیں اور یونانیوں کو نکال دیں،پس یونانیوں یعنی رومیوں میں سے جو شہر سے نکل جائے گا اُس کے جان و مال کو امان دی جاتی ہے جب تک کہ وہ محفوظ مقام تک نہ پہنچ جائے،اگر کوئی رومی ایلیا ہی میں رہنا پسند کرتا ہے،تو اُس کو باقی اہل شہر کی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا اوراگر اہل ایلیا میں سے کوئی شخص رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو اس کو امن وامان ہے،یہاں تک کہ وہ محفوظ مقام پر پہنچ جائیں،جو کچھ اس عہد نامہ میں درج ہے اُس پر خدا اور رسول اورخلفاء اورتمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے،بشر طیکہ اہل ایلیا مقررہ جزیہ کی ادائیگی سے انکار نہ کریں۔ اس عہد نامہ پر حضرت خالد بن ولیدؓ،عمروبن العاصؓ،عبدالرحمن بن عوفؓ اورمعاویہ بن ابی سفیان کے دستخط بطور گواہ ثبت ہوئے،بیت المقدس والوں نے فوراً جزیہ ادا کرکے شہر کے دروازے کھول دئے،اسی طرح اہل رملہ نے بھی مصالحت کے ساتھ شہر مسلمانوں کے سپر د کردیا،فاروق اعظمؓ پیادہ پا بیت المقدس میں داخل ہوئے،سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں گئے محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدہ داؤد کی آیت پڑھ کر سجدہ کیا،پھر عیسائیوں کے گرجے میں گئے اوراُس کی سیر کرکے واپس تشریف لائے،بیت المقدس کی فتح کے بعد فاروق اعظمؓ نے صوبہ فلسطین کے دو حصہ کرکے ایک حصہ پر علقمہ بن حکیم کو عامل مقرر کرکے رملہ میں قیام کا حکم دیا،دوسرے حصہ پر علقمہ بن محرز کو عامل مقرر فرما کر بیت المقدس میں رہنے کا حکم دیا۔