انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خالد بن ولیدؓ کی معزولی عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فاروق اعظمؓ نے تختِ خلافت پر بیٹھتے ہی خالد بن ولید کو معزول کردیا تھا لیکن اس بات کے سمجھنے میں لوگوں سے بہت غلطی ہوئی ہے ،فاروق اعظمؓ نے شروع عہد خلافت میں خالد بن ولیدؓ کو حقیقی طور پر معزول نہیں کیا تھا؛بلکہ ان کا درجہ کس قدر کم کیا تھا،پہلے خالد بن ولیدؓ سپہ سالاراعظم تھے فاروق اعظمؓ نے اُن کو نائب سپہ سالار اعظم بنادیا تھا، اس ایک درجہ کے ٹوٹنے سے اُن کی ذمہ داریوں میں کوئی نمایاں فرق نہ آیا تھا،صرف اس بات کی روک تھام ہوگئی تھی کہ وہ آزادانہ طور پر مسلمانوں کی جمعیت کو کسی خطرہ کے مقام میں نہیں لے جاسکتے تھے اورحضرت ابوعبیدہؓ کی رضا مندی اوراجازت ان کو حاصل کرنا پڑتی تھی ،خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا اصل واقعہ ۱۷ھ کے آخری مہینوں میں ہوا اوراس کی تفصیل اس طرح ہے؛کہ فاروق اعظمؓ ہر سردار فوج ،ہر عامل ہر حصہ فوج اورہر شہر کے حال سے باخبر رہتے تھے، آپ کے پرچہ نویس ہر فوج اورشہر میں موجود ہوتے تھے اور بلا کم وکاست ضروری حالات سے خلیفۂ وقت کو آگاہ رکھتے تھے؛حالانکہ ہر ایک عامل اورہر ایک سردار فوج خود بھی اپنے حالات کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا،فاروق اعظمؓ کو ان کے پرچہ نویس نے اطلاع دی،کہ خالد بن ولیدؓ جو صوبہ جزیرہ کی فتح سے ابھی واپس ملک شام میں آئے ہیں اپنے ساتھ بے حد مال و دولت لائے ہیں، اورانہوں نے اپنی مدح کے صلہ میں اشعث بن قیس شاعر کو دس ہزار درہم دئے ہیں، فاروقِ اعظمؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو لکھا کہ خالد سے سر مجلس دریافت کیا جائے کہ تم نے اشعث کو انعام اپنی گرہ سے دیا ہے یا بیت المال سےاگر اپنی گرہ سے دیا ہے تو اسراف ہے اوربیت المال سے دیا ہے تو خیانت ،دونوں صورتوں میں معزولی کے قابل ہو، خالدؓ کا عمامہ اُتار کر اُسی عمامہ سے اُن کی گردن باندھی جائے،قاصد سے فاروق اعظمؓ نے یہ بھی کہدیا تھا کہ اگر خالد بن ولیدؓ اپنی غلطی کا اقرار کریں تو ان سے درگذر کی جائے؛چنانچہ وہ مجمع عام میں بلائے گئے،قاصد نے اُن سے پوچھا کہ یہ انعام تم نے کہاں سے دیا؟ خالد یہ سُن کر خاموش رہے اوراپنی خطا کا اقرار کرنے پر رضامند نہ ہوئے،مجبوراً قاصد نے ان کا عمامہ اُتار کر اُسی سے ان کی گردن باندھی اورپھر دوبارہ دریافت کیا تو خالد نے کہا کہ اشعث کو میں نے اپنے مال سے انعام دیا ،بیت المال سے نہیں دیا، قاصد نے یہ سنتے ہی گردن کھول دی اورفاروق اعظمؓ کو اس کیفیت کی اطلاع دی،فاروق اعظمؓ نے خالد بن ولیدؓ کو جواب دہی کے لئے مدینہ منورہ میں طلب فرمایا،خالد بن ولیدؓ نے حاضر ہوکر کہا کہ عمر! واللہ تم میرے معاملے میں انصاف نہیں کرتے ہو،فاروق اعظمؓ نے کہا،تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی اوراس قدر انعام وصلہ شاعر کو تم نے کہاں سے دیا؟ خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ مال غنیمت سے جو میرے حصے میں آیا تھا،انعام دیا تھا،پھر خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ اچھا ساٹھ ہزار سے جو کچھ زیادہ ہو،وہ بیت المال میں جمع کرتا ہوں؛چنانچہ حساب کرنے پر بیس ہزار زائد نکلے اوربیت المال میں داخل کردئے گئے،اس کے بعد دونوں حضرات میں صفائی ہوگئی اورکوئی وجہ کدورت باقی نہ رہی، خالد بن ولیدؓ کے متعلق یہ شکایت شروع سے تھی کہ وہ فوجی حساب کتاب کو صاف نہ کرتے اورمکمل حساب نہ سمجھاتے تھے،اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ آزادانہ صرف کردیا کرتے تھے اوران کی شاہ خرچیاں اکثر اوقات کسی قاعدے کے ماتحت نہ آسکتی تھیں، اسی لئے فاروق اعظمؓ نے اُن کا ایک درجہ توڑ دیا تھا اوراب چشم نمائی کے طور پر دارالخلافہ میں طلب فرما کر ایک نوع کی تنبیہ کردی تھی۔