انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کھانے پینے کے برتن سونے چاندی کے برتن: اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَاo قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًاo وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًاo عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا۔ (الدھر (الإنسان):۱۵ تا ۱۸) ترجمہ:اور ان کے پاس چاندی کے برتن لائے جائیں گے اور آبخورے جوشیشے کے ہوں گے، وہ شیشے چاندی کے ہوں گے، جن کوبھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھرا ہوگا اور وہاں ان کوایسا جام شراب پلایا جائے گا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ۔ (الزخرف:۷۱) ترجمہ:ان کے پاس سونے کی رکابیاں اور گلاش لائے جائیں گے۔ چاندی کے برتنوں کی چمک اور صفائی: حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرتم دنیا کی چاندی میں سے کچھ چاندی لوپھراس کواتنا باریک کروکہ مکھی کے پرکی طرح کردو پھربھی تمھیں اس کے پیچھے سے پانی نظر نہیں آئے گا؛ لیکن جنت کی چاندی کے برتن صفائی میں آئینہ کی طرح ہوں گے اور سفیدی میں چاندی کی طرح۔ (وصف الفردوس:۷۶) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں جوکچھ بھی ہے اس کی مثل تمھیں دنیا میں عطاء فرمائی گئی؛ مگرچاندی آئینہ جیسی عطاء نہیں کی گئی۔ سونے کے سترپیالے: ارشادِ خداوندی يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ کی تفسیر میں حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنتیں کے سامنے سترقسم کے بڑے پیالے پیش کئے جائیں گے ہرپیالے میں ایسے رنگ اور قسم کا طعام وغیرہ ہوگا جودوسرے میں نہ ہوگا۔ سونے چاندی کے برتوں سے کون لوگ محروم رہیں گے؟ حدیث: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَاتَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذّهَبِ وَالْفِضّةِ وَلَاتَأْكُلُوا فِي صِحَافِهِمَا فَإِنّهَا لَهُمْ فِي الدّنْيَا وَلَكُمْ فِي الْآخِرَةِ۔ (بخاری:۵۴۲۶، فی الاطعمہ۔ حادی الارواح:۲۵۷) ترجمہ: تم (مسلمان) سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو اور نہ ہی ان کے پیالوں (اور برتنوں) میں کھاؤ؛ کیونکہ یہ دنیا میں خدا کے دشمنوں کے لیے ہیں (تم پران کا استعمال کرنا حرام ہے یہ) تم کو آخرت (جنت میں) ملیں گے۔ شہداء کی جنت میں خاطرتواضع کے برتن: حدیث: حضرت انس رضی اللہ بنیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواچھے خواب پسند آتے تھے؛ پس جو کوئی شخص کوئی خواب دیکھتا اور اس کی تعبیر کا علم نہ ہوتا تووہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تعبیر معلوم کرتا تھا؛ اگراس کا خواب اچھا ہوتا توآپ اس کے خواب کوپسند کرتے تھے؛ چنانچہ ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! میں نے دیکھا ہے کہ جیسے میں جنت میں داخل ہوں اور میں نے ایک دھماکہ کی آواز سنی جس سے جنت گونج اُٹھی تومیں نے دیکھا کہ فلاں ولد فلاں کولایا گیا ہے؛ حتی کہ اس نے بارہ آدمی گن دیئے جن کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے کسی جگہ ایک فوج کے دستہ میں بھیج رکھا تھا ان کو (جنت میں) اس حالت میں لایا گیا کہ ان کے کپڑے غبارآلود تھے، گردن کی رگوں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے لیے کہا گیا کہ ان کونہر بیدخ کی طرف لے جاؤ چنانچہ ان کواس میں غوطہ دیا گیا جب وہ اس سے باہر نکلے ہیں توان کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح روشن نظر آرہے تھے، وہ عورت کہتی ہے کہ پھرسونے کی چودہویں کے چاند کی طرح روشن نظر آرہے تھے، وہ عورت کہتی ہے کہ پھرسونے کی کرسیاں لائی گئیں جن پریہ حضرات تشریف فرما ہوئے پھرایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں تازہ کھوجوریں تھی چنانچہ انہوں نے اس سے تناول کیا پس جتنا انہوں نے چاہا تازہ کھجوروں سے کھالیا پھروہ جس طرف کوالتٹے پلٹتے تھے اور جومیوہ چاہتے تھے اس سے کھاتے تھے، میں نے بھی ان کے ساتھ کھالیا، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اس فوجی دستہ سے ایک شخص خوشخبری لے کر آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ہمارے ساتھ ایسا ایسا معاملہ پیش ہوا ہے اور فلاں فلاں آدمی شہید ہوگئے حتی کہ اس نے بارہ آدمی گن دیئے جن کواس عورت نے شمار کیا تھا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنا خواب اس (خوشخبری سنانے والے) کے سامنے دہراؤ تواس نے دہرادیا تواس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ! واقعی ایسا ہی ہوا ے جیسا اس خاتون نے بیان کیا ہے۔ (مسنداحمد:۳/۱۳۵۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۴۰۷) جنت کے پھل: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا۔ (البقرۃ:۲۵) ترجمہ: جب کبھی یہ لوگ ان بہشتوں میں کسی پھل کی غذا دیئے جائیں گے توکہیں گے (ہربار) یہ تووہی ہے جوہم کواس سے پہلے ملا تھا اور ان کو (دونوں بار کا پھل) ملتا جلتا ملے گا۔ وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ (32) لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ۔ (الوقاعۃ:۳۲،۳۳) ترجمہ:اور کثرت سے میوے ہوں گے جونہ ختم ہوں گے (جیسے دنیا کے میوے فصل تمام ہونے سے حتم ہوجاتے ہیں) اور نہ روک ٹوک ہوگی (جیسے دنیا میں باغ والے اس کی روک تھام کرتے ہیں)۔ فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ۔ (الرحمن:۶۸) ترجمہ:ان دونوں باغٰں میں میوے اور کھجوریں اور انار ہوں گے۔ وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ۔ (محمد:۱۵) ترجمہ: اور ان کے لیے وہاں ہرقسم کے پھل ہوں گے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کچھ حضرات مذکورہ پہلی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جنتیوں کوجنت میں جوپھل ملیں گے وہ ان کودیکھ کرکہیں گے کہ یہ توہم دنیا میں دیئے جاچکے ہیں؛ حالانکہ ان کورنگ اور دیکھنے میں مشابہ ملیں گے، ذائقہ میں مشابہ نہیں ہوں گے۔ (ابن جریر، بدورالسافرہ:۱۸۸۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جوکچھ جنت میں ہے اس میں سے دنیا میں صرف اس کے نام ہی ہیں۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، مسند مسدد، زہد ابن ہناد، بیہقی، بدورالسافرہ:۸۸۳) ارشادِ خداوندی فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ (الرحمن:۵۱) ترجمہ:ان دونوں باغات میں ہرمیوے کے جوڑے جوڑے ہوں گے۔ اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دنیا میں کوئی پھل میٹھا یاکڑوا ایسا نہیں ہے جوجنت میں نہ ہو حتی کہ اندرائن (حنظل) بھی ہوگا۔ (تفسیرابن ابی حاتم، تفسیر ابن المنذر، البدورالسافرہ:۱۸۸۴) حدیث: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَايَنزع رَجُل مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ ثَمَرِهَا إِلَّاأعيد فِيْ مَكَانِهَا مِثْلَاهَا۔ (مسندبزار:۳۵۳۰) ترجمہ:جنتیوں میں سے جوشخص اس کا پھل تورے گا تووہاں پرویسا ہی پھل دوبارہ لگادیا جائے گا۔ جنت کا انگور: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ فَذَهَبْتُ أَتَنَاوَلُ مِنْهَا قِطْفًا أُرِيكُمُوهُ فَحِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ، مَامَثَلُ الْحَبَّةِ مِنَ الْعِنَبِ؟ قَالَ: كَأَعْظَمِ دَلْوٍفَرَتْ أُمُّكَ قَطُّ۔ (ابویعلی بسند حسن:۲/۳۸۰) ترجمہ:میرے سامنے جنت پیش کی گئی تومیں اس سے ایک گچھا توڑنے گیا تاکہ تمھیں دکھاؤں لیکن میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ حائل کردی گئی توایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہمیں مثال سے وضاحت کریں کہ (جنت کا) انگور کتنا بڑا ہوگا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس ڈول سے بڑا ہوگا جس کوتیری ماں نے (بکری وغیرہ کی کھال سے) کبھی کاٹ کرتیار کیا ہو۔ خوشہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ملکِ شام میں تشریف فرما تھے تو (آپ کے) ساتھیوں نے جنت کا باہمی تذکرہ کیا توآپ نے فرمایا: جنت کے خوشوں میں سے ایک خوشہ یہاں (ملکِ شام) سے لے کر خیفا (مدینہ کے قریب ایک جگہ) یا صنعا (جیسا کہ ابن ابی الدنیا اور ترغیب میں ہے) جتنا لمبا ہے۔ (ابن ابی الدنیا:۴۶۔ بدورالسافرہ:۱۸۸۸) حدیث: صلوۃ کسوف کی حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہٍ! ہم نے آپ کویہاں اسی جگہ پرکسی چیز کواٹھاتے ہوئے دیکھا ہے؛ مگرپھرہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہوگئے ہیں؟ توآپ نے فرمایا: إِنِّي أُرِيتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْأَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَابَقِيَتْ الدُّنْيَا۔ (بخاری، كِتَاب الْأَذَانِ،بَاب رَفْعِ الْبَصَرِ إِلَى الْإِمَامِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۷۰۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں نے جنت کودیکھا ہے اور اس کے ایک خوشہ کوپکڑا ہے؛ اگرمیں اس کوتوڑلیتا توجب تک دنیا قائم رہتی تم اس سے کھاتے رہتے۔ پھل کی لمبائی: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمات ہیں کہ جن تکے پھلوں میں سے (تقریباً ہر) پھل کی لمبائی بارہ ہاتھ ہے ان میں گٹھلی نہیں ہوگی۔ (ابن ابی الدنیا، صفۃ الجنۃ، بدورالسافرہ:۱۸۸۹) انار: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت کے اناروں میں سے ایک انار کے گرد بہت سے حضرات بیٹھ کراس سے تناول کریں گے جب ان میں سے کسی کے سامنے کسی چیز کا ذکرچھڑے گا جس کی اس کوچاہت ہوگی تووہ اس کواپنے ہاتھ میں موجود پائے گا جہاں سے وہ کھارہا ہوگا۔ (ابن ابی الدنیا صفۃ الجنۃ:۱۲۲۔ بدورالسافرہ:۱۸۹۰) حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نَظَرْتُ إِلَى الْجَنَّةِ فَإِذَا الرُّمَّانَةُ مِن رُمَّانِهَا كَمِثْلِ الْبَعِيْرِ المُقْتَبِ۔ (ابن ابی حاتم، بدورالسافرہ:۱۸۹۱) ترجمہ:میں نے جنت میں دیکھا تواس کے اناروں سے ایک انار پلان کسے ہوئے اونٹ کی طرح (موٹا) تھا۔ جنت کے انار کا دانہ دنیا میں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انار کے ایک دانہ کواٹھایا اور اس کوکھالیا ان سے کہا گیا آپ نے یہ کیوں کیا؟ فرمایا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زمین کے ہرانار میں جنت کے دانوں میں سے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے شاید کہ یہ وہی ہو۔ (طبرانی بسن صحیح، بدورالسافرہ:۱۸۹۲) فائدہ: اس ارشاد کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بھی روایت کیا گیا ہے۔ (الطب النبوی لابن سنی، البدورالسافرہ:۱۸۹۲، کنزالعمال) دنیا کے پھلوں کی اصل جنت سے آئی ہے: حدیث: حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کوجنت سے باہر نکالا توان کوجنت کے پھلوں کا توشہ عطاء فرمایا اور ہرشے کی صنعت کی تعلیم دی؛ پس تمہارے یہ پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں؛ سوائے اس کے کہ یہ خراب ہوجاتے ہیں اور جنت کے خراب نہیں ہوں گے۔ جنت کے میوے قیامت میں کون کھائیں گے: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،حدیث نمبر:۲۳۷۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جومؤمن کسی مؤمن کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کوقیامت کے دن جنت کے میوؤں سے کھلائیں گے اور جومسلمان کسی مسلمان کوپیاس کی حالت میں پانی پلائے اللہ تعالیٰ اس کو رحیق مختوم سے پلائیں گے اور جومؤمن کسی مؤمن کوجب اس کے پاس کپڑا نہیں تھا کپڑا پہنائے گا تواللہ تعالیٰ اس کوجنت کا سبز لباس پہنائیں گے۔ پھل کھانے کے حالات: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ئفرماتے ہیں جنت والے جنت کے پھل ئئکھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اور لیٹ کر جس حالت میں چاہیں گے کھائیں گے۔ (سنن سعید بن منصور، حادی الارواح:۲۳۲) لیموں اور انار: حضرت خالد بن معدان رحمۃ اللہ عیہ فرماتے ہیں کہ انار اور لیموں جنت کے میوؤں میں سے ہیں جنتی اس سے انار یالیموں کوجتنا دل چاہے گا کھائے گا پھروہ اس کوجس رنگ میں چاہے گا بدل جائے گا۔ (ابن ابی الدنیا:۱۱۳)