انوار اسلام |
س کتاب ک |
کیا وقت شروع ہونے سے پہلے اذان دی جاسکتی ہے ؟ اذان کا مقصد نماز کا وقت شروع ہوجانے کی اطلاع دینا ہے؛ اگر وقت شروع ہوجانے سے پہلے ہی اذان دے دی جائے تو یہ مقصد فوت ہوجائےگا اور لوگ بھی غلط فہمی میں پڑیں گے، اس لئے ظاہر ہے کہ وقت شروع ہونے کے بعد ہی اذان دینی چاہئے، قبل ازوقت اذان دینی درست نہیں اور اگر دے دی جائے تو اس کا اعتبار نہیں؛ خواہ فجر کا وقت ہو یا کسی اور نماز کا وقت؛ چنانچہ رسول ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بلال! جب تک صبح طلوع نہ ہوجائے اذان نہ دو، نیز حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ایک بار صبح سے پہلے ہی اذان دے دی، تو آپ ﷺ نے اُن کو اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ بندہ سوگیا تھا، تاکہ لوگوں کو غَلط فہمی نہ ہو، معلوم ہوا کہ فجر میں بھی وقت شروع ہونے کے بعد اذان دینا ضروری ہے، قبل ازوقت اذان دینی درست نہیں اور اگر دے دے تو اذان کا لوٹانا واجب ہے، یہ حنفیہ کی رائے ہے؛ البتہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں رات کے اخیر حصہ میں اذان دینے کی گنجائش ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۱۲۹،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۵/۴۴۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۴/۹۴، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۶۸، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)