انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مالک بن نویرہ کا قتل مالک بن نویرہ کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اُس نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سن کر اظہار مسرت کیا تھا، پھر سجاح کے ساتھ بھی اُس نے مصالحت کی تھی،مگر بعد میں اُس کے لشکر سے جدا ہوکر چلاگیا تھا، اب جب کہ مالک بن نویرہ گرفتار ہوکر آیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز جوابا ً آئی تھی،اس لئے اس کو قتل نہیں کرنا چاہئے بعض نے کہا کہ انہوں نے جواباً اذان نہیں کہی، یہ خلیفہ رسول اللہ کے حکم کے موافق واجب القتل ہے، حضرت خالد بن ولیدؓ نے جہاں تک تحقیق و تفتیش کیا یقینی اور قطعی شہادت اس معاملہ میں دستیاب نہ ہوئی، اس پر طُرہ یہ ہوا کہ مالک بن نویرہ نے جب حضرت خالد بن ولیدؓ سے گفتگو کی تو اس کی زبان سے اثناء گفتگو میں کئی بار یہ نکلا کہ تمہارے صاحب نے ایسا فرمایا، تمہارے صاحب کا ایسا حکم ہے وغیرہ اس تمہارے صاحب سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے،حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ لفظ سن کر غصہ سے فرمایا : کہ کیا وہ تیرے صاحب نہ تھے،اس پر اُ س نے کوئی جواب مناسب نہیں دیا،طبری کی روایت کے موافق حضرت ضرار بن الازورؓ اُس وقت شمشیر بدست کھڑے تھے،انہوں نے حضرت خالدؓ کا اشارہ پاتے ہی اُس کا سر اُڑادیا،یہ میدان جنگ کا ایک نہایت معمولی سا واقعہ تھا؛ لیکن مؤرخین کو اس کا خاص طورپر اس لئے ذکر کرنا پڑا کہ ابو قتادہ بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کی فوج میں شامل تھے اور وہ انہیں لوگوں میں تھے جو یہ کہتے تھے کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز آ ئی تھی، لہذا مالک بن نویرہ کو قتل نہیں کرنا چاہئے، بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مالک بن نویرہ کو حضرت خالد بن ولیدؓ نے قتل نہیں کرایا؛بلکہ انہوں نے مزید تحقیق حال کے لئے مالک بن نویرہ کو ضراراؓ بن ازورؓ کی حراست میں دےدیا تھا اور اتفاقاً رات کے وقت دھوکے سےمالک بن نویرہ ضرار بن ازور کے ہاتھ سے قتل ہوا ،بہرحال حضرت ابو قتادہؓ بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ خالد بن ولیدؓ سے بلا اجازت لئے خفا ہوکر مدینے میں چلے آئے اوریہاں آکر شکایت کی کہ خالد بن ولیدؓ مسلمانوں کو قتل کرتا ہے،حضرت عمرفاروقؓ اوردوسرے مسلمانوں نے مدینے میں جب یہ بات سُنی تو خالد بن ولیدؓ کے متعلق حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شکایت کی اورکہا کہ خالد کو معزل کرکے اس سے قصاص لینا چاہئے،مدینہ منورہ میں خالد بن ولیدؓ کے متعلق عام ناراضی اس لئے بھی پھیل گئی اور قتل مسلم کا الزام اس لئے اور بھی اُن پر تُھپ گیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بعد میں مالک بن نویرہ کی بیوی سے نکاح کرلیا تھا،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سب کچھ سن کر حضرت ابوقتادہؓ کو مجرم قرار دیا کہ خالدؓ کی بلا اجازت کیوں لشکر سے جُدا ہوکر چلے آئے،اُن کو حکم دیا گیا واپس جائیں اور خالد کے لشکر میں شامل ہوکر اُن کے ہر ایک حکم کو بجالائیں؛چنانچہ اُن کو واپس جانا پڑا،حضرت عمر فاروقؓ اور دوسرے صحابہ کو سمجھایا کہ خالد پر زیادہ سے زیادہ ایک اجتہادی غلطی کا الزام عائد ہوسکتا ہے ،فوجی نظام اور آئین جنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے خالد کو سیفٌ من سیوف اللہ میں نہ زیر قصاص لایا جاسکتا ہے نہ معزول کیا جاسکتا ہے،صدیق اکبرؓ نے مالک بن نویرہ کا خوں بہا بیت المال سے ادا کردیا، ایک اسی واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام کو اپنے دشمنوں کے قتل کرنے میں کس قدر احتیاط مد نظر رہتی تھی اور وہ کسی معمولی شخص کے لئے ایک قیمتی سپہ سالار کو بھی حق وانصاف کی عزت قائم رکھنے کے واسطے قتل کرنا اور زیر قصاص لانا ضروری سمجھتے تھے۔