انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قبولیتِ روایت میں اصل الاُصول اعتماد ہے قرآن کریم کی رُو سے فاسق کی خبر بھی مطلقاً رد نہیں؛ بلکہ اس کی مزید تحقیق کی جائے گی، دوسرے ذرائع اور قرائن سے اس کی تحقیق ہوجائے تواسے بھی قبول کیا جاے گا، بات کے لائقِ اعتماد ہونے میں نبوی موقف بھی آپ کے سامنے آچکا؛ اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ قبولیتِ روایت میں اصل الاصول اعتماد اور وثوق ہے، جب یہ حاصل ہوجاے تویہی مدارِ عمل ہے، نہ خبر کا ایک راوی سے ہونا اس میں رُکاوٹ بن سکتا ہے نہ روایت کا بالمعنی مروی ہونا اس میں سبب قدح ہوسکتا ہے؛ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں سند کا متصل ہونا بھی ضروری نہیں، نچلاراوی اگرکوئی مسلّم علمی شخصیت ہو اور روایت استدلال میں پیش کی جارہی ہوتو یہ مرسل روایت Interrupted report بھی اعتماد وثوق پر قبول کی جاسکتی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے پاس حضورؐﷺ کی کوئی بات پہنچتی توگواس کا حضورؐ ﷺ سے براہِ راست نقل کرنے والا نہ بھی ملتا وہ اُس کی تحقیق میں برابر لگ جاتے اگراتصالِ روایت نہ ملتا اور ایسے قرائن میسر آجاتے (مثلاً مختلف تابعینِ کرام جو مختلف شہروں میں رہتے ہوں اور آپس میں ملاقات نہ ہوئی ہو دین کے کسی موضوع میں ایک ہی بات کہیں توظاہر ہے کہ وہ بات انہوں نے مختلف صحابہ کرامؓ سے لی ہوگی اور اگر اس میں اجتہاد کا پہلو نہ ہوتو اسے بحالات، حضورﷺ کی بات ہی سمجھا جائے گا) جن سے پتہ چل جاتا کہ یہ روایت حضورﷺ کی ہے تووہ اس کوقابلِ قبول سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے اور روایت کا متصل نہ ہونا اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا تھا، حضرت عمرؓ کوبتایا گیا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ حجاز میں دودین جمع نہیں ہوسکتے، بیان کرنے والا صحابی تھا یاتابعی، بصورتِ اولیٰ صحابی نے خود حضورﷺ سے یہ بات سنی تھی یاکسی اور نے اس کے سامنے یہ روایت نقل کی تھی، ان تمام امور میں یہ خبر مجہول Unknown تھی، حضرت عمرؓ نے اس پر مزید تحقیق اور تفحص فرمایا؛ یہاں تک کہ آپ کواس پر وثوق واعتماد حاصل ہوگیا اور آپ نے اس پر عمل فرمایا، محدث شہیرعبدالرزاق الصنعانی (۲۱۱ھ) کہتے ہیں: "اخبران النبیﷺ قال فی وجعہ الذی مات فیہ لایجتمع بارض الحجاز دینان ففحص عن ذلک حتی وجد علیہ التثبت"۔ (المصنف لعبدالرزاق:۴/۱۲۶) حضرت عمرؓ کوبتایا گیا کہ حضوراکرمﷺ نے اپنے اس مرض میں جس میں وفات پائی تھی کہا تھا کہ اس زمین حجاز میں دودین جمع نہ ہونے پائیں (یہ مرکزِ اسلام ہے جہاں صرف اسلام ہی رہے گا) آپ نے اس کی تحقیق فرمائی اور اس پر تثبت پالیا (کہ یہ واقعی صحیح خبر تھی)۔ وہ صحابی کون تھے جنہوں نے حضورﷺ سے یہ بات سنی تھی ان کا نام نہیں ملا، امام مالکؒ نے مؤطا میں اسے امام زہریؒ (۱۲۴ھ) سے روایت کیا ہے کہ حضورﷺ نے یہ فرمایا تھا، صحابی کا نام درمیان میں نہیں ملتا؛ مگرچونکہ اور ذرائع سے اس کی تحقیق ہوگئی اور وہ تحقیق بھی خود حضرت عمرؓ نے ہی فرمائی تھی، اس لیئے اس روایت کومحض اس لیئے قبول کرلیا گیا کہ اس پر دوسرے ذرائع سے تثبت ووثوق حاصل ہوچکا ہے، معلوم ہوا کہ ان دنوں اصل "سندکااتصال " نہیں تھا، قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد تھا، جب یہ حاصل ہوجائے توروایت قابلِ عمل ہوجاتی تھی اور اسی پر حضرت عمرؓ نے یہودیوں کاخیبر سے اخراج کیا تھا (مؤطا امام مالکؒ:۲۶۰) امام محمدؒ (۱۸۹ھ) اس حدیث کواس طرح نقل کرتے ہیں: "بلغنا عن النبیﷺ انہ لایبقیٰ دینان فی جزیرۃ العرب فاخرج عمر من لم یکن مسلماً من جزیرۃ العرب لہٰذا الحدیث"۔ (موطا امام محمد:۳۷۳) ترجمہ: ہمیں حضورﷺ سے یہ بات پہنچی ہے آپ نے فرمایا کہ جزیرۃ العرب میں دودین باقی نہ رہ سکیں گے حضرت عمرؓ نے اس حدیث کی وجہ سے ہراس شخص کوجومسلمان نہ تھا جزیرۂ عرب میں نہ رہنے دیا۔ یہاں پر حضرت عمرؓ نے سند کا اتصال نہیں دیکھا؛ بلکہ قرائن وذرائع سے اس کی تحقیق فرمائی جب ثابت ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد یہ ہے توآپ نے اس پر عملی قدم اُٹھایا اور یہودیوں کا اخراج فرمایا، پتہ چلا کہ کبھی قرائن بھی ایسے باوثوق ہوتے تھے کہ انکار کی گنجائش نہیں ہوتی، حضرت عمرؓ کے اس طریقِ کار پر کسی صحابی نے جرح نہیں کی، نہ آپ پر کسی نے کوئی اُنگلی اُٹھائی؛ بلکہ آپ کی اس تحقیق کے بعد سارے صحابہؓ اس پر متفق ہوگئے کہ حضورﷺ کی تعلیم یہی ہے۔