انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علی بن مدینی اتباعِ تابعین کے زمرہ میں جن محدثین کوجرح وتعدیل کا امام سمجھا جاتا ہے ان میں ایک علی بن المدینی بھی ہیں؛ گویہ عمر میں چھوٹے تھے؛ مگرعلم وفضل کی وجہ سے ان کا شمار اکابر محدثین میں ہوتا تھا۔ نام ونسب ابوالحسن کنیت اور علی نام تھا، ان کا خانوادۂ قبیلہ بنوسعد کے ایک شخص عطیتہ السعدی کا غلام تھا، آبائی وطن مدینہ تھا، اس نسبت سے مدینی مشہور ہیں بعد میں یہ خاندان بصرہ میں آباد ہوگیا تھا، یہیں سنہ۱۶۱ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کی نشوونما اور ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا، ان کے دادا اور والد دونوں صاحب علم وفضل تھے، ان کے والد کے بارے میں توخطیب نے لکھا ہے کہ یہ مشہور محدث تھے، ان کی ابتدائی تعلیم انہی کی آغوشِ تربیت میں ہوئی، بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اختتام تعلیم سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہوچکا تھا؛ چنانچہ جب انہوں نے سماع حدیث کے لیے یمن کا کا سفر کیا تواس وقت ان کے اخراجات کی ساری ذمہ داری اُن کی والدہ کے سرتھی۔ طلب علم کا شوق ان کے شیوخ کی فہرست پرنظرڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے طلب علم کے شوق میں دوردور کی خاک چھانی تھی، مکہ، مدینہ، بغداد، کوفہ غرض ممالکِ اسلامیہ کے ہرمشہور مقام تک طلب علم کے لی گئے، خصوصیت سے یمن میں وہ تین سال تک مقیم رہے، علم حدیث سے ان کوفطری لگاؤ بھی تھا اور وراثتاً بھی یہ علم ان کے حصہ میں آیا تھا، اس لیے ان کے علم کا سارا جوہر اس فن میں کھلا، سماعِ حدیث کے لیئے جس وقت انہوں نے یمن کا سفر کیا تھا، اس وقت یہ مبتدی نہیں تھے؛ بلکہ اپنے حفظ وسماع سے حدیث کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ اپنے پاس جمع کرچکے تھے، خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے سلسلہ سفر کے اعتبار سے ایک سند جمع کی تھی، میں جب یمن جانے لگا تواس کوبحفاظت ایک بکس میں بند کرتا گیا؛ لیکن تین برس کے بعد واپس ہوا تویہ سارا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر ہوچکا تھا، مجھ پراس کا ایسا اثر ہوا کہ پھردوبارہ اس کے جمع کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ (تہذیب التہذیب:۷) والدہ کی طرف سے طلب علم کی ہمت افزائی والد کے انتقال کے بعد گھر کا کوئی نگران نہیں تھا، صرف ان کی والدہ تنہا تھیں، ان کے قیام یمن کے زمانہ میں ان کونہ جانے کتنی کلفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؛ مگرانہوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان تکالیف کی اطلاع دے کراپنے نورچشم کے سمندر شوق کی راہ میں کوئی روڑہ ڈالیں؛ بلکہ جن لوگوں نے اس کامشورہ دیا ان کوانہوں نے اپنے لڑکے کادشمن سمجھا؛ چنانچہ جس وقت علی بن المدینی یمن سے واپس آئے توانہوں نے بیان کیا کہ بیٹا میں نے تمہارے دوستوں اور دشمنوں کواچھی طرح پہچان لیا، بیٹے نے پوچھا! اماں جان! یہ کیسے؟ بولیں جب تم یمن میں تھے توفلاں فلاں آدمی میرے پاس آتے اور ادب سے سلام کرتے اور مجھ کوتسلی دیتے اور کہتے کہ آپ ان کی مفارقت سے گھبرائیں نہیں، جس وقت علی واپس آئیں گے توان کودیکھ کرآپ کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل باغ باغ ہوجائے گا، میں نے اس سے سمجھ لیا کہ یہ لوگ تمہارے مخلص اور بہی خواہ ہیں، ان کے برخلاف فلاں فلاں اشخاص آئے اور کہنے لگے کہ آپ ان کوخط لکھئے کہ وہ جلد واپس آجائیں؛ اگرنہ آئیں توپھرپریشان کن خط لکھئے ان باتوں سے میں سمجھی کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں، دوست نہیں۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۴۶۳) علمی شغف ان کے علمی شغف کا حال یہ تھا کہ رات کوسوتے سوتے کوئی حدیث یاد آگئی یاکوئی شبہ ہوا فوراً لونڈی سے کہتے کہ چراغ جلا، چراغ جل جاتا اور وہ جب اپنی تسکین کرلیتے تب جاکے پھران کونیند آتی تھی۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۴۶۳) اساتذہ جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا تھا، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: ان کے والد عبداللہ بن جعفر، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، ابوداؤد طیالسی، ابن علیہ، سعید بن عامروغیرہ۔ اعترافِ فضل ان کے علم وفضل کا ہرکسی کواعتراف تھا، یحییٰ بن سعید القطان ان کے اساتذہ میں سے تھے؛ مگروہ کہا کرتے تھے کہ علی بن المدینی نے جتنا مجھ سے استفادہ کیا ہے اس سے کہیں زیادہ میں نے اُن سے استفادہ کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۱) اسی طرح مشہور محدث اور اُن کے شیخ ابن مہدی کہا کرتے تھے کہ میں نے احادیث نبوی کا اتنا برا جاننے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۱) سفیان بن عیینہ کے یہ خاص اور محبوب تلامذہ میں تھے، بعض لوگوں کوابن المدینی کے ساتھ ان کی یہ نسبت ومحبت ناگوار گزرتی تھی، ایک دن انہوں نے فرمایا کہ مجھے لوگ علی کی محبت پرملامت کرتے ہیں، خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے جتنا کسب فیض کیا ہے، اس سے کچھ زیادہ میں نے اُن سے استفادہ کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۹) سفیان ان کوحدیث کا مرجع وماویٰ کہتے تھے، کہتے تھے کہ اگرابن المدینی نہ ہوتے تو میں درس دینا بند کردیتا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ادب سے ان کا نام نہیں لیتے تھے؛ بلکہ ہمیشہ اُن کی کنیت ابولحسن ہی سے اُن کومخاطب کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۱) امام بخاریؒ ان کے تلامذہ میں ہیں، ان کا قول ہے کہ میں نے علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے کوحقیر نہیں سمجھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۲) ان کے انتقال کے بعد ایک بار کسینے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ بولے ہاں! ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن مدینی زندہ ہوتے اور میں عراق جاکر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۱) ابن ماجہؒ اور نسائیؒ نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں، امام نسائی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوعلم حدیث ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۱) خصوصیت ان کے اساتذہ اور دوسرے ائمہ نے ان کے بارے میں جورائیں دی ہیں، ان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، بلکہ یہ واقعہ ہے کہ ابن مدینی کوجوخصوصیت حاصل تھی اس میں ان کے اساتذہ اور معاصرائمہ میں بہت کم لوگ ان کے سہیم وشریک تھے ، ابن مدینی حدیث کے حافظ اور محض راوی نہیں تھے؛ بلک ہحدیثِ نبوی کے عارف وماہر تھے، سندومتن رواۃ وروایت ہرچیز پرنظرتھی، خامیوں اور نقائص کا پورا علم رکھتے تھے، ابوحاتم کا قول ہے کہ علی معرفت حدیث و علل میں ایک علامت ونشان تھے۔ (تہذیب التہذیب) محدث فرہیانی سے کسی نے امام احمد، یحییٰ بن معین اور ابن مدینی کے بارے میں سوال کیا توانہوں نے کہا کہ یحییٰ کورجال میں درک تھا اور امام احمد میں تفقہ زیادہ تھا اور ابن مدینی کے بارے میں کہا کہ : فأعلمهم بالحديث والعلل۔ (تهذيب التهذيب:۷/۳۰۸، شاملہ،المؤلف: ابن حجر العسقلاني، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۷/۳۵۲) ترجمہ:حدیث اور اس کی سندوں اور علتوں سے خوب واقف تھے۔ محمدبن یحییٰ کا بیان ہے کہ میں نے ان کے پاس ایک کتاب دیکھی جس کی پشت پرلکھا تھا کہ ابن مدینی کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک حدیث کی علت سے واقفیت ہوجاے تویہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ بے جانے بوجھے میں بیسیوں حدیثیں یاد کرلوں؛ اسی خصوصیت کی بناپر روایت کی صحت وعدم صحت پر جب بحث ومباحثہ ہوتا تواپنے معاصرین میں یہی حکم بناتے جاتے اور انہی کی رائے پربحت کا خاتمہ ہوتا تھا، بغداد اس وقت علم وفن کا سب سے بڑا مرکز تھا؛ مگروہاں جب ابن المدینی پہنچ جاتے توایک نیا حلقہ درس قائم ہوجاتا اور تمام ائمہ پروانہ وار ان کے گرد جمع ہوجاتے اور جب ان کے درمیان کوئی مختلف فیہ مسئلہ آجاتا اور فیصلہ نہ ہوپاتا توپھر اس میں ابن مدینی اپنی رائے دیتے تھے۔ (تهذيب التهذيب:۷/۳۰۸، شاملہ،المؤلف: ابن حجر العسقلاني، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۷/۳۵۲) روایت حدیث میں شدتِ احتیاط اس زمانہ میں روایت حدیث عام طور پر ایک علم وفضل کی چیز بن گئی تھی، اس لیے بعض نااہلوں نے بھی روایت حدیث کی مسند سنبھالی تھی اور ان کی وجہ سے بیشمارقصے اور افسانے احادیث نبوی کے نام سے عوام میں مشہور ہوگئے تھے، ائمہ حدیث کا یہ غیرمعمولی کارنامہ ہے کہ انہوں نے ایسے افسانوں اور قصوں کوذخیرۂ حدیث سے چھانٹ کرالگ کردیاخود ابن مدینی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک لاکھ مرویات جن میں تیس ہزار ایک راوی عباد بن صہیب سے مروی تھیں ترک کردیں، اس لیے کہ یہ قابل اعتبار نہیں تھیں۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۴) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ حدیث اور خاص طور سے ابن مدینی نے صحیح حدیث کی تفتیش وتنقید میں کتنی جانکاہی کی تھی۔ عادات واخلاق اپنے اخلاق وعادات میں اسلاف کا نمونہ تھے، عباس عنبری کہتے ہیں کہ اگران کی عمر نے کچھ اور زیادہ وفا کی ہوتی تواپنے اخلاق وعادات میں وہ حسن بصری سے بڑھ جاتے ان کی زندگی کا ہرگوشہ اتنا پاکیزہ اور پرکشش تھا کہ : كان الناس يكتبون قيامه وقعوده ولباسه وكل شيء يقول ويفعل۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۴۶۲، شاملہ،المؤلف: أحمد بن علي أبوبكر الخطيب البغدادي،الناشر: دارالكتب العلمية،بيروت) ترجمہ:ان کی چال ڈھال، نشت وبرغاست ان کے لباس کی کیفیت غرض ان کے ہرقول وعمل کولوگ اسوہ سمجھ کرلکھ لیا کرتے تھے۔ ان ہی اوصاف کا کرشمہ تھا کہ جب تک یہ بغداد میں رہتے، سنت کا چرچا بڑھ جاتا اور شیعیت کا زور گھٹ جاتا اور جب کچھ دنوں کے لیے یہ بصرہ چلے جاتے تویہ فتنہ پھرزور پکڑلیتا، یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: كان علي بن المديني إذا قدم علينا اظهر السنة وإذاذهب إلى البصرة اظهر التشيع۔ (تهذيب التهذيب:۷/۳۰۹، شاملہ،المؤلف: ابن حجر العسقلاني، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۷/۳۵۳) ترجمہ:علی بن مدینی جب بغداد آجاتے توسنت کا چرچا ہوجاتا تھا اور جب وہ بصرہ چلے جاتے توشیعیت زور پکڑجاتی۔ تصنیف یہ ان ائمہ تبع تابعین میں ہیں، جنھوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ انہوں نے حدیث میں دوسوایسی تصنیفیں چھوڑی ہیں جس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی؛ مگران میں بیشتر ضائع ہوگئیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ صاحب تصانیف تھے، ابن ندیم نے ان کی چند تصانیف: کتاب المسند بعللہ، کتاب المدلسین، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب الاسماءوالکنی، کتاب الاشربہ، کتاب النزیل۔ (تهذيب التهذيب:۷/۳۲۲) فتنہ خلق قرآن اور ابن مدینی کی آزمائش متعدد ائمہ کے حالات میں مسئلہ خلق قرآن کا ذکر آچکا ہے، اس فتنہ کی شدت اور ہمہگیری کا اندازۃ اس وقت نہیں لگایا جاسکتا مگردوسری صدی کے آخر اور تیسری صدی کے شروع کے حالات وواقعات کواگرسامنے رکھا جائے تواس کی اہمیت اور شدت کا کچھ اندازہ ہوجائے گا، اس مئلہ نے سب سے زیادہ اہمیت خلیفہ معتصم کے زمانہ میں اس وقت اختیار کرلی تھی، جب اس نے پوری مملکت میں یہ اعلان کرادیا تھا اور اپنے گورنروں کے ذریعہ یہ گشتی کرادی تھی کہ جوشخص خلقِ قرآن کا قائل نہیں ہے، اس کوحبس وضرب ہی نہیں بلکہ داردرسن کی سزا بھی دی جاسکتی ہے، اس اعلان کے بعد بڑے بڑے ائمہ اور محدثین کے پیروؤں میں لغزش آگئی اور انہوں نے اس کا اقرار کرلیا، کتنے روپوش ہوگئے؛ مگرمردانِ خدا ایسے بھی تھے، جونہ روپوش ہوئے اور نہ اُن کے پیروں میں لغزِ آئی؛ بلکہ آخر وقت تک اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ یہ عقیدہ سراسراسلام وایمان کے خلاف ہے، اس کے نتیجہ میں ان کووہ سب کچھ بھگتناپڑا جس کا اس سے پہلے اعلان ہوچکاتھا، ان ظاہرین علی الحق کے سرخیل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تھے۔ اس مسئلہ میں جن بزرگوں نے کمزوری دکھائی، یایوں کہیے کہ عزیمت کے بجائے رخصت اختیار کی ان میں علی بن المدینی بھی تھے، اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان کا انتہائی احترام کرتے تھے؛ مگراس مسئلہ میں جب سے ان سے لغزش ہوئی توانہوں نے اپنا رویہ بدل لیا، اس واقعہ کی تفصیل خطیب بغدادی نے یہ بیان کی ہے: معتصم باللہ کوجب یہ معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور بعض دوسرے ائمہ اس مسئلہ میں اس کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں تواس نے ان کودربار میں طلب کیا اوربرسرِدربار شاہانہ انداز میں ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ قیامت میں خداکادیدار ہوگا؛ حالانکہ یہ م مکن نہیں ہے، اس لیے کہ خدائے تعالیٰ کی ذات لامحدود ہے او رہماری آنکھوں کی بصارت محدود تومحدود چیز لامحدود کوکیسے دیکھ سکتی ہے، آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ قیامت میں رُویت باری ہوگی، آپ نے نہایت ہی صفائی اور جرأت سے فرمایا: میرے پاس جودلیل ہے وہ محض ظنی وقیاسی نہیں؛ بلکہ نقل وروایت پرمبنی ہے(یہ فرماکرامام نے اس کی عقل پرستی پرایک ضرب لگائی تھی)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِگرامی ہے کہ تم قیامت میں خدائے تعالی ٰکاسی طرح دیکھوگے جس طرح چودھویں کے چاند کودیکھتے ہو، معتصم یہ دلیل سن کرکچھ گھبرا ساگیا اور اس نے قاضی احمد بن داود (اسی شخص کی بدنفسی اور جاہ پسندی کی وجہ سے اس مسئلہ نے اتنا زور پکڑا تھا) سے مخاطب ہوکرپوچھا کہ تمہارے پاس اس حدیث نبوی کا کوئی جواب ہے یہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بولا! کہ میں اس حدیث کی سند پرغور کرلوں توجواب دوں، علی بن المدینی سے غالباً اس کے تعلقات پہلے سے تھے، دربار سے نکل کرسیدھے ان کے پاس پہنچا اور ان کے سامنے کچھ نذر پیش کی اور کوئی گفتگو کیے بغیر چلاگیا؛ پھردوبارہ دس ہزار درہم ان کی خدمت میں یہ کہلا کربھیجا کہ یہ امیرالمؤمنین نے آپ کوہدیۃً بھیجے ہیں اور انہوں نے یہ حکم دیا ہے کہ آپ کوجس چیز کی ضرورت ہے وہ فراہم کردی جائے، یہ دام زریں بچھانے کے بعد پھرابن مدینی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ رؤیت باری کے سلسلہ میں حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جوروایت مروی ہے کیا وہ صحیح ہے، آپ کے نزدیک اس میں کوئی سقم تونہیں ہے؟ ابن مدینی نے فرمایا کہ مجھے اس بارے میں معاف ہی رکھئے (مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ مگرچونکہ یہ فتنہ کا سبب بنی ہوئی ہے، اس لیے میں اس بارے میں کوئی رائے دینا نہیں چاہتا) ابن ابی داؤد نے دیکھا کہ اس کا وارخالی جانا چاہتا ہے تواس نے ابن مدینی سے کہا کہ یہ موجودہ زمانہ حالات کی ضرورت ہے جس کوکیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد پھران کی خدمت میں کچھ تحائف پیش کئے اور اس حدیث کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی اب ابن مدینی کے پاس ثبات میں لغزش آگئی اور انہوں نے وہی جواب دے دیا جوابن ابی داؤد کا منشاء تھا؛ انہوں نے کہا کہ اس حدیث کے سلسلہ سند میں ایک سقم ہے، وہ یہ کہ اس کا ایک راوی قیس بن حازم قابل ترک ہے، ابن ابی داؤد یہ سن کرخوشی سے اُچھل پڑا اور ابن مدینی کوگلے سے لگالیا اور وہاں سے دربارِ خلافت کا رُخ کیا، وہاں پہنچ کراس نے معتصم کے سامنے روایت کے اس ضعف کوظاہر کیا، معتصم کوجب یہ بہانہ ہاتھ آگیا توامام احمد کواس نے سزادینے کا حکم دیا۔ خطیب نے اس واقعہ کونقل کرنے کے بعد خود ہی اسے ناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے کئی باتیں لکھی ہیں، ایک یہ کہ جن لوگوں نے امام احمد کی آزمائش کا ذکر کیا ہے، ان میں کسی نے بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ رؤیت باری کے بارے میں امام احمد سے سوال وجواب ہوا، دوسرے قیس بن حازم کوناقابل اعتبار کہنا صحیح نہیں ہے، ان کا شمار ممتاز تابعین میں ہوتا ہے، تمام ائمہ حدیث ان کی وثاقت پرمتفق ہیں اور ان سے روایت کرتے ہیں، خود ابن مدینی نے بھی ان سے متعدد روایتیں کی ہیں، ظاہر ہے کہ ابن مدینی جس راوی سے خود روایت کرتے ہوں اس کو وہ ناقابل اعتبار ٹھہرائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ پھرانہوں نے لکھا ہے کہ اگربفرض محال یہ بات صحیح ہو کہ اس موضو عپرمعتصم کے سامنے مناظرہ ہوا توبھی یہ بات توقطعی غلط ہے کہ ابن مدینی نے مذکورہ روایت کے راوی قیس بن حاز کوقابل ترک قرار دیا ہو، یہ بھی ابن ابی داؤد کی چال تھی کہ اس نے خود اپنی طبیعت سے ایک اعتراض پیدا کیا اور اس کوابن مدینی کی طرف منسوب کردیا۔ (تاریخ بغداد:۱۱/۶۶) ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس صور میں صحیح نہ ہومگراتنی بات یقینی ہے کہ ابن مدینی سے مسئلہ خلقِ قرآن کے بارے میں لغزش ہوئی اور انہوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف رائے دی، جس کی وجہ سے معتصم کی پوزیشن مضبوط ہوگئی اور اس میں وہ تنہا نہیں تھے؛ بلکہ بہت سے اور بھی علماء شریک تھے، یہ اور بات ہے کہ یہ لغزش ان سے حبس وضرب اور دارورسن کے خوف سے ہوئی، خود ابن مدینی کواس غلطی کا زندگی بھرافسوس رہا، کسی نے اُن سے کہا کہ احمد کے مقابلہ میں اب آپ کی روایات کواہلِ علم وقعت نہیں دیتے تونہایت ہی شرمساری کے ساتھ بولے کہ ہاں! ایسا توہونا ہی چاہیے، امام احمد توکوڑوں کی شدید مار سہارلے گئے، میں توایک کوڑا بھی نہیں برداشت کرسکتا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۷) محمد بن عبداللہ موصلی کا بیان ہے کہ علی بن مدینی جہمیت کے عقائد کی ہمیشہ تردید کیا کرتے تھے؛ مگرجب انہوں نے ابتلاء کے زمانے میں اپنی پہلی رائے کے خلاف رائے دی تومیں نے ان کوایک خط لکھا، اس میں میں نے ان کوخدا کا واسطہ دے کرلکھا کہ آپ نے اس سے پہلے جن خیالات کی تردید کی تھی آج ان ہی کی تائید کررہے ہیں، جب خط ان کوملا توروپڑے اور بڑے افسوس کے لہجہ میں کہا کہ میں نے جوکچھ لکھا ہے محض قتل کے خوف سے لکھا ہے؛ ورنہ میرا قلب اس رائے سے بالکل اِباکرتا ہے، تم جانتے ہو کہ میں کمزور آدمی ہوں؛ اگرمجھ کوایک کوڑا بھی لگتا تومیں جان برنہیں ہوسکتا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۵۵) جس وقت یہ ابتائے عام پیش آیا اس وقت ظاہری طور پرامام احمد کا ساتھ آحر وقت تک کسی نے نہیں دیا؛ مگرچونکہ رائے یہی صحیح تھی، اس لیے ہرخاص وعام کے دل میں ان ہی کے رائے کی وقعت تھی اور جن لوگوں نے ان کے خلاف رائے دی وہ ان کی نگاہوں سے گرگئے تھے۔ حدیث کے بارے میں ابن مدینی کی شخصیت کے مسلم ہونے میں کیا شبہ ہے مگرمسئلہ خلقِ قرآن میں امام احمد کی رائے سے اختلاف کی بناء پرعام ائمہ حدیث کی نظروں میں وہ اتنا گرگئے کہ ان کی روایت کے قبول کرنے میں لوگ پس وپیش کرنے لگے تھے؛ حتی کہ بعض نے توان کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، غالباً یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کی تصانیف کی طرف کوئی اعتنا نہیں کیا اور کثیرالتصانیف ہونے کے باوجود ان کی کوئی تحریری یادگار موجود نہیں رہی؛ مگربہرحال یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی ایک لغزش کی وجہ سے جس پران کوندامت اورشرمندگی بھی تھی، یہ رائے قائم کی جائے کہ ان کی تمام روایتیں ضعیف تھیں۔ ابوجعفر عقیلی کہتے ہیں کہ ان کا رحجان اگرچہ ابن ابی داؤد اور جہمیت کی طرف ہوگیا تھا؛ مگران کی مرویات نہایت ہی درست ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۷۶) امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابن مدینی کے مناقب وفضائل بہت زیادہ ہیں، کاش! وہ اس فتنہ میں مبتلا ہ ہوئے ہوتے؛ اگرچہ اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی، اس لی کہ انہوں نے بعد میں اس پراپنی ندامت کا اظہار کیا اور جن خیالات کا وہ پہلے اظہار کرچکے تھے ان سے رجوع بھی کرلیا تھا؛ یہاں تک کہ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر کرنے لگے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۷۶) وہ برسرِ منبر کہتے تھے کہ کلام اللہ مخلوق نہیں ہے، عمروبن علی ان پربہت سخت تنقید کرتے تھے، یحییٰ بن معین کومعلوم ہوا تووہ اس پربہت خفا ہوئے اور فرمایا کہ ان کومرتد یافاسق بنانا انتہائی غلط بات ہے، محض جان کے خوف کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن میں ان سے چوک ہوگئی۔ ابن اخرم نے اپنی مجلس میں ایک دن ابن مدینی کی تعریف کی؛ اسی پرکسی نے کہا کہ عمروبن علی توان پرجرح کرتے ہیں، ابن حبان اور دوسرے تمام ائمہ حدیث نے ان کی توثیق کی ہے ظاہر ہے کہ ان ہی ائمہ پرجرح وتعدیل کا دارومدار ہے؛ انہوں نے جب ان کی توثیق کردی توان کی روایات کے بارے میں ضعف کا شبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ وفات ان کے سنہ وفات اور مقام وفات دونوں میں اختلاف ہے، سنہ وفات کسی نے سنہ۲۳۲ھ اور کسی نے سنہ۲۳۸ھ لکھا ہے؛ مگرخطیب بغدادی نے سنہ۲۳۴ھ کوصحیح قرار دیا ہے، بعض اہلِ تذکرہ نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بصرہ میں ہی ہوا؛ مگرخطیب بغدادی اور ابن ندیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انفقال سامرا میں ہوا اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ (خطیب بغدادی:۱۱/۲۷۲،۲۷۳)