انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
خطبہ اور تقریر سے پہلے سلام شوافع وحنابلہ کے نزدیک جب خطیب منبر پربیٹھے تواس کوسلام کرنا چاہئے؛ کیونکہ ابنِ ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پربیٹھتے توسلام فرماتے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ سَلَّمَ۔ (سنن ابنِ ماجہ، كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا،بَاب مَاجَاءَ فِي الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۰۹۹، شاملہ، موقع الإسلام) حنفیہ کے یہاں قول مشہور یہی ہے کہ خطیب سلام نہیں کرے؛ کیونکہ اگروہ سلام کرتے توسامعین جواب دینے پرمجبور ہونگے اور امام کے منبر پربیٹھنے کے بعد سامعین کے لیے گفتگو کی ممانعت ہے؛ جہاں تک حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، تواس کوامام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے؛ لیکن حنفیہ میں سے علامہ حدادی اور ایک گروہ کا خیال ہے کہ خطیب سلام کرسکتا ہے؛ اس لیے بہتر تویہی ہے کہ خطیب سلام نہ کرے؛ لیکن اگرکرلے تواس کی بھی گنجائش ہے۔ جہاں تک عام بیانات اور تقریروں سے پہلے سلام کی بات ہے، تواگر حاضرین سے پہلے ملاقات ہوچکی ہو، تب توبیان سے پہلے سلام نہیں کرنا چاہئے؛ کیونکہ سلام کا تعلق ملاقات سے ہے، نہ کہ بیان سے، اور سلام کی جگہ اوّل ملاقات ہے اور وہ پہلے ہوچکی اور اگرپہلے سے حاضرین سے ملاقات نہ ہوئی ہو، یاحاضرین میں زیادہ لوگ ہوں، کچھ سے ملاقات ہوئی اور کچھ سے نہیں توتقریر کرنے سے پہلے سلام کرسکتے ہیں؛ تاہم ایسا کرنا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ سلام کرنا سنت ہے، نہ کہ واجب۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۴۸،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۸۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)