انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جلبیبؓ جلبیب نام تھا، انصار کے کسی قبیلہ سے تھے،سلسلۂ نسب معلوم نہیں ،آنحضرت ﷺ نے انصار کی ایک لڑکی سے ان کی نسبت ٹھہرائی؛ چونکہ نہایت کم رو اور پستہ قد تھے اس لئے لڑکی کے والدین نے انکار کرنا چاہا، لیکن لڑکی نہایت سمجھ دار تھی اس کو معلوم ہوا تو یہ آیت پڑھی: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ۔ (الاحزاب:۳۶) یعنی جب اللہ اور رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مسلمان کو اس میں چوں وچرا کی گنجائش نہیں۔ اور میں بالکل رضا مند ہوں جو رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہے وہی میری بھی ہے،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو آپ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا :اللھم اسبب علیھا الخیر ولا تجعل عیشھا کدا خدا وندا اس پر خیر کا دریا بہادے اوراس کی زندگی کو تلخ نہ کر۔ دعائے نبویﷺ کا یہ اثر ہوا کہ تمام انصار میں اس سے زیادہ کوئی عورت تونگر اورخراچ نہ تھی۔ عورت کی رضا مندی پاکر آنحضرتﷺ نے جلبیبؓ سے کہا کہ فلاں لڑکی سے تمہارا نکاح کرتا ہوں،بولے یا رسول اللہ! آپ مجھے کھوٹا پائیں گے فرمایا" لکنک عنداللہ لست بکاسد "یعنی تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو ( اس واقعہ کی تفصیل اور بھی ہے) (استیعاب،مسند احمد) شہادت آنحضرتﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں تھے کہ مال غنیمت آیا ارشاد ہوا دیکھو کون کون لوگ لاپتہ ہیں، لوگوں نے چند آدمیوں کے نام گنائے ،آپ نے ۳ مرتبہ پوچھا اور وہی جواب ملا تو فرمایا :لکنی افقد جلبیبا! لیکن میں جلبیب کو گم پاتا ہوں۔ مسلمان حضرت جلبیبؓ کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ سات آدمیوں کے پہلو میں مقتول پڑے ہیں، آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی، آپ خود تشریف لائے،اورلاش کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا:قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ (مسلم،باب فضائل جلبیب ؓ،حدیث نمبر:۴۵۱۹) سات کو قتل کرکے قتل ہوا یہ مجھ سےہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اور جلبیب کی لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لائے اور قبر کھدواکر دفن کیا اورغسل نہیں دیا ۔ (مسلم:۲/۳۴۷) حضرت جلبیبؓ واقعی خدا کے نزدیک کھوٹے نہ تھے، شہادت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ یہ شرف کتنا عظیم الشان تھا کہ رسول اللہ ﷺ خود اپنے ہاتھوں سے ان کی لاش اٹھا کر لائے،تمام لوگوں کا تابوت لکڑی کا تختوں سے تیار ہوتا ہے ؛لیکن حضرت جلبیبؓ کا تابوت مہبط وحی والہام کا دست مبارک تھا۔ بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندی کہ بوقت جاں سپردن بسرش رسیدہ باشی