انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وہب بن عبداللہ نسائی اور حمزہ خارجی کا خروج جب کہ عیسیٰ بن علی مامون الرشید کی تقریب ولی عہدی کے سلسلہ میں بغداد کی طرف آیا توابوحصیب وہب بن عبداللہ نسائی نے علمِ بغاوت بلند کرکے خراسان میں لوٹ مارشروع کردی، جب عیسیٰ بن علی نے واپس جاکر اس کا تعاقب کیا تووہب نے خائف ہوکر امان طلب کی؛ چنانچہ اس کوامان دے دی گئی اور وہ خاموش ہوکر بیٹھ گیا، اس واقعہ کے بعد ہی یہ خبر مشہور ہوئی کہ بلادباد غیس میں حمزہ بن اترک خارجی نے خروج کیا ہے اور شہروں پرقبضہ کرتا جاتا ہے، ہرات میں اُن دنوں عمرویہ بن یزید ازدی عامل تھا اُس نے چھ ہزار سواروں کی جمعیت لے کرحمزہ پرحملہ کیا، حمزہ نے اس کوشکست دے کر اس کے بہت سے سواروں کوقتل کرڈالا اور اسی ہنگامہ میں معرویہ بھی کچل کرمرگیا، یہ سن کرعلی بن عیسیٰ نےاپنے لڑکے حسن بن علی کودس ہزار فوج دے کرحمزہ کے مقابلہ کوروانہ کیا؛ مگرحسن نے حمزہ کا مقابلہ نہ کیا، تب علی بن عیسیٰ نے اپنے دوسرے بیٹے عیسیٰ بن علی کومامور کیا، مقابلہ ہوا اور حمزہ نے عیسیٰ بن علی کوشکست دے کربھگادیا، علی بن عیسیٰ نے عیسیٰ بن علی کودوبارہ تازہ دم فوج دے کرپھرحمزہ کے مقابلے پربھیجا، مقام نیشاپور میں مقام معرکہ کارزار گرم ہوا اس معرکہ میں حمزہ شکست کھاکر قہقستان کی طرف گئے، عیسیٰ بن علی نے ادق، جوین اور اُن قصبات ودیہات کی طرف اپنے لشکریوں کومتعین کیا جوحمزہ کی مدد کررہے تھے اور نہایت بے رحمی سے چن چن کرخوارج کوقتل کیا؛ یہاں تک کہ تیس ہزار آدمی اس طرح مارے گئے، اس کے بعد عیسیٰ نے مقامِ زرنج میں عبداللہ بن عباس نسفی کومالِ غنیمت جمع کرنے کے لیے چھوڑ کرخود کابل وزابلستان تک بڑھتا چلا گیا، ابوخصیب وہب بن عبداللہ جوشہر نسا میں امان طلب کرنے کے بعد خاموش بیٹھا تھا، میدان خالی دیکھ کرعہد شکنی پرمستعد ہوگیا اور باغیوں کا ایک گروہ کثیراپنے گرد جمع کرکے اجیورو، نسا، طوس اور نیشاپور پرقابض ہوگیا، اُدھرحمزہ نے اپنی مختصر جمعیت سے گاؤں اور قصبوں پرچھاپے مارنے اور راستے لوٹنے شروع کردیئے؛ غرض حمزہ اور وہب نے چار سال تک علی بن عیسیٰ اور اسکے ہمراہیوں کوچین سے نہیں بیٹھنے دیا، اس عرصہ میں بعض اوقات ابوخصیب نے مرو کا بھی محاصرہ کیا، آخرسنہ۱۸۶ھ میں وہب کے مارے جانے سے خراسان میں امن وامان قائم ہوا اور علی بن عیسیٰ نے اہلِ خراسان پرسختی وتشدد شروع کیا۔ اسی سال سنہ۱۸۲ھ میں عبدالرحمن بن عبدالملک بن صالح صائفہ کے ساتھ بغرضِ جہاد بلادِ روم کی طرف روانہ ہوا اسی زمانہ میں رومیوں نے اپنے بادشاہ قسطنطین کے وفات کے بعد اس کی ماں ملکہ رویبی کوعطشہ کے لقب سے تخت نشین کیا، ہارون الرشید کے رعب واقتدار کا جودربار قسطنطنیہ پرچھایا ہوا تھا یہ نتیجہ ہوا کہ اس رومی ملکہ نے صلح کی سلسلہ جنبانی شروع کی اور اسلامی سرداروں کے پاس پیغامات بھیج کراُن کوصلح کی جانب مائل کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ فران سکا بادشاہ شارلمین اٹلی کا ملک فتح کرچکا تھا اور مغربی روم پرقابض ہوکر مشرقی روم یعنی سلطنتِ قسطنطنیہ پربھی دانت رکھتا تھا، اس لیے اس رومی ملکہ نے بڑی دانائی کے ساتھ ہارون الرشید کوجزیہ دینا منظور کرکے صلح کرلی اور اپنے آپ کومغربی خطرہ سے مقابلہ کرنے کے قابل بنالیا۔