انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث باوضو پڑھنا مستحب ہے قرآن مجید تووحی متلو ہے جسے بغیروضو چھونا منع ہے "لَایَمَسُّہُ إِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ" حدیث شریف غیرمتلو ہے؛ سومستحب ہے کہ اسے بھی بغیروضو نہ چھوئے بلکہ وضوسے ہی پڑھے اور پڑھائے، اکابر علماءِ امت حدیث باوضو ہی پڑھاتے رہے ہیں، تابعی کبیر حضرت قتادہؒ (۱۱۸ھ) کے بارے میں مروی ہے: "لقد کان یستحب ان لاتقرأ الاحادیث التی عن النبیﷺ الاعلی وضوءٍ"۔ (المصنف لعبدالرزاق:۱/۳۴۴۔ وشرح السنۃ للبغوی:۲/۵۰) ترجمہ: آپ مستحب سمجھتے تھے کہ حضوراکرمﷺ کی احادیث باوضو ہی پڑھیں۔ حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) کا عمل بھی ملاحظہ کیجئے: "کان مالک بن انس لایحدث بحدیث رسول اللہﷺ الاوھو علی وضوءاجلالاً لحدیث رسول اللہﷺ "۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر:۲/۱۹۹) ترجمہ: امام مالکؒ آنحضرتﷺ کی حدیث جب بھی بیان کرتے تووضوسے ہوتے، آپ کا یہ عمل حدیثِ رسول کی اجلال شان کے لیے تھا۔ حضرت امام لیث مصریؒ (۱۷۵ھ) بھی حدیث کی کتابت طہارت وضو ءکے ساتھ کرتے تھے (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۳)سلفِ صالحین بے وضو حدیث بیان کرنے کوناپسند کرتے تھے، حضرت اعمش (۱۴۷ھ) سے جب وضوء نہ ہوسکتا توتیمم ہی کرلیتے تھے (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۲) حضرت امام بخاریؒ کے بارے میں تومشہور ہے کہ ہرحدیث کی تخریج سے پہلے غسل کرتے اور دورکعت صلوٰۃ الاستخارہ پڑھتے تھے۔ (فضل الباری:۱/۶۱، للشیخ العثمانی رحمہ اللہ) اس سے آپ اندازہ کریں کہ اس دور میں حدیث کا کس قدر احترام ہوتا تھا اور مؤمنین کس طرح شریعت کے اس چشمہ زلال پر دل وجان سے قربان ہوتے تھے۔