انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شماس بن عثمانؓ نام ونسب شماس نام ،والد کا نام عثمان،اور والدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: شماس بن عثمان بن الشرید بن ہرمی بن عامر بن مخزوم القرشی المخزومی ہشام کلبی کی روایت ہے کہ ان کا اصلی نام عثمان تھا، شماس اس لیے نام پڑا کہ ایک دفعہ ایام جاہلیت میں ایک نہایت حسین وجمیل نصرانی جس کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا تھا مکہ آیا، لوگ اس کے غیرم معمولی حسن وجمال پر سخت متعجب تھے، عتبہ بن ربیعہ نے(جو حضرت شماسؓ کا ماموں تھا دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اس سے زیادہ بہتر شماس یعنی رخ تاباں موجود ہے، اور مقابلہ میں حضرت ابن عثمانؓ کو پیش کیا، چنانچہ اس دن سے ان کا نام ہی شماس ہوگیا۔ (اسد الغابہ:۳/۳۷۵) اسلام حضرت شماس ؓ اوران کی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہؓ نے بھی ابتدا ہی میں دعوتِ توحید پر صدائے لبیک بلند کیا تھا۔ (استیعاب تذکرہ شماس) ہجرت مشرکین کے ظلم سے مجبور ہوکر راہی حبش ہوئے، حضرت صفیہؓ بھی ہمراہ تھیں، وہاں سے واپس آکر پھر مدینہ کی راہ لی اورحضرت مبشر بن عبدالمنذرؓ کے مہمان ہوئے، یہاں حضرت حنظلہ ابن ابی عامر انصاری ؓ سے مواخات ہوئی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث) غزوات غزوۂ بدرواُحد میں جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزار تھے، معرکہ احد میں جب کہ اتفاقاً جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، غازیانِ اسلام کی فتح شکست سے مبدل ہوگئی اورصرف چند جان نثار میدان میں رہ گئے تو حضرت شماس ؓ بھی ان ہی پروانوں میں تھے جو شمع نبوت کے ارد گرد فداکاری کے جوہر دکھارہے تھے، آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں شماسؓ کے لیے "سپر" کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا، آپ چپ وراست جس طرف دیکھتے حضرت شماسؓ ہی سربکف نظر آتے ، غرض انہوں نے اپنے آپ کو مہبط وحی والہام ﷺ کے لیے سپر بنادیا، یہاں تک کہ زخموں سے چورہوکر گر گئے، اختتامِ جنگ کے بعد دیکھا گیا تو دمِ واپسیں کے چند انفاس باقی تھے، آنحضرت ﷺ کے حکم سے مدینہ اٹھاکر لائے گئے، حضرت ام سلمہؓ ان کی تیمار داری پر مامور ہوئیں، لیکن اس فدائے ملت کا فرض پورا ہوچکا تھا ،دربارِ خداوندی سے حصولِ انعام کی دعوت آچکی تھی ،ایک شبانہ روز توقف کے بعد انہوں نے داعی حق کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون آنحضرت ﷺ نے ان کو اسی خونیں پیراہن کے ساتھ بغیر نماز جنازہ اُحد کے گورِ شہیداں میں دفن کرنے کا حکم دیا،(اسد الغابہ :۳/۴) غرض چونتیس برس کی عمر میں سپرد خاک ہوئے ، (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۶) انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ حلیہ حضرت شماسؓ نہایت حسین وخوبرو تھے، چنانچہ اس تابانی رخ نے ان کو شماسؓ کے نام سے مشہور کیا۔ (ایضاً: ۱۷۵) اولاد ایک لڑکا عبداللہ اورایک لڑکی ام حبیب یاد گارچھوڑی،لیکن یہ دونوں لاولد فوت ہوئے اس لیے سلسلہ نسل منقطع ہوگیا۔ (ایضاً:۱۷۵)