انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیع کی قسمیں حکم کے اعتبار سے بیع کی دو قسمیں ہیں: (۱)جائز۔ (۲)ناجائز۔ بیع جائز کی تین صورتیں ہیں: (۱)نافذ لازم۔ (۲)نافذ غیر لازم۔ (۳)موقوف۔ (۱)نافذ لازم: وہ بیع جو اپنے اصل اورخارج (یعنی اس کے ارکان و شرائط کے اعتبار سے درست ہو) کے اعتبار سے درست ہو اور کسی کو کوئی اختیار باقی نہ ہو جیسے کوئی کتاب خریدا اوراس کی خامیوں اور خو بیوں سے واقف ہوکر پانچ روپیہ میں لینے پر راضی ہوگیا تو بیع مکمل صحیح ہوگئی۔ حوالہ عَنْ جَابِرٍ…ثُمَّ قَالَ لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَالَ قُلْتُ فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ(مسلم بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ ۲۹۹۸) عن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا(بخاري بَاب إِذَا بَيَّنَ الْبَيِّعَانِ الخ ۱۹۳۷)۔ وَأَمَّا شَرَائِطُ لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ وَنَفَاذِهِ وَصِحَّتِهِ فَوَاحِدٌ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ خَالِيًا عَنْ خِيَارَاتٍ أَرْبَعَةٍ خِيَارِ التَّعْيِينِ وَخِيَارِ الشَّرْطِ وَخِيَارِ الْعَيْبِ وَخِيَارِ الرُّؤْيَةِ فَلَا يَلْزَمُ مَعَ أَحَدِ هَذِهِ الْخِيَارَاتِ وَهَذَا عِنْدَنَا(بدائع الصنائع فصل في شَرَائِط لُزُومِ الْبَيْعِ بَعْدَ انْعِقَادِهِ۴۶۶/۱۱) بند (۲)نافذ غیر لازم: وہ بیع ہے جو اپنے اصل اورخارج کے اعتبار سے درست ہو البتہ دونوں میں سے کسی کا اختیار باقی ہو، جیسے کسی نے بغیر دیکھے کوئی چیز خرید لیا مگر دیکھنے تک غور و فکر کا خواہشمند ہے تو یہ بیع اپنے اصل کے اعتبار سے صحیح نافذ ہوگئی مگر اختیار باقی ہے اس لیے غیر لازم ہوئی۔ حوالہ عن مكحول ، يرفع الحديث : من اشترى شيئا لم يره فهو بالخيار إذا رآه إن شاء أخذه وإن شاء تركه (السنن الكبري للبيهقي باب بيع خيار الرؤية ۵۴/۲) (وَأَمَّا) صِفَتُهُ فَهِيَ أَنَّ شِرَاءَ مَا لَمْ يَرَهُ الْمُشْتَرِي غَيْرُ لَازِمٍ ؛ لِأَنَّ عَدَمَ الرُّؤْيَةِ يَمْنَعُ تَمَامَ الصَّفْقَةِ(بدائع الصنائع خِيَارُ الرُّؤْيَةِ ۲۷۶/۱۲) بند (۳)بیع موقوف: وہ بیع ہے جس میں مبیع( جس چیز کو بیچا جارہا ہے اس ) سے کسی اور کا حق متعلق ہو جیسے کوئی نابالغ وناسمجھ بچہ کوئی چیز بیچ دیا تو بحیثیت ولی باپ کا حق اس سے متعلق ہے تو جب تک باپ اجازت نہ دے وہ بیع موقوف رہےگی اجازت دیدے تو بیع نافذ ولازم ہوجائے گی۔ حوالہ فَأَمَّا الْبُلُوغُ فَلَيْسَ بِشَرْطٍ لِانْعِقَادِ الْبَيْعِ عِنْدَنَا ، حَتَّى لَوْ بَاعَ الصَّبِيُّ الْعَاقِلُ مَالَ نَفْسِهِ ؛ يَنْعَقِدُ عِنْدَنَا مَوْقُوفًا عَلَى إجَازَةِ وَلِيِّهِ ، وَعَلَى إجَازَةِ نَفْسِهِ بَعْدَ الْبُلُوغِ(بدائع الصنائع، فصل في شرائط ركن البيع۵۳/۱۱) بند بیع ناجائز کی تین صورتیں ہیں: (۱)بیع فاسد (۲)بیع باطل۔ (۳)بیع مکروہ۔ (۱)بیع باطل:وہ بیع ہے جس کی ذات اوراصل ہی میں خرابی ہو جیسے کوئی مسلمان خنزیر کی بیع کرے تو شریعت میں چونکہ خنزیر مال ہی نہیں ہے اس لیے بیع کی اصل اوربنیاد ہی صحیح نہیں ہوئی۔ حوالہ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ(بخاري بَاب بَيْعِ الْمَيْتَةِ وَالْأَصْنَامِ ۲۰۸۲) والبيع الباطل: هو ما اختل ركنه أو محله، أو هو ما لا يكون مشروعاً بأصله ولا بوصفه، أي أن يكون العاقد ليس أهلاً للعقد، أو أن يكون محل العقد ليس قابلاً له(الفقه الاسلامي وادلته أنواع البيوع عند الحنفية ۸۰/۵) بند (۲)بیع فاسد: وہ بیع ہے جس کی ذات اوراصل میں کوئی خرابی نہ ہو لیکن کسی دوسری وجہ سے کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہو جیسے عاقدین میں سے کوئی ایسی شرط لگادے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہو۔ حوالہ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ ) والبيع الفاسد: هو ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، أي أن يصدر من أهل له في محل قابل للبيع، ولكن عرض له أمر أو وصف غير مشروع(الفقه الاسلامي وادلته أنواع البيوع عند الحنفية ۸۰/۵) بند (۳)بیع مکروہ:وہ بیع ہے جو اپنی اصل اورذات کے لحاظ سے صحیح ہو لیکن کسی خارجی سبب کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو،جیسے مسجد میں بیع کرنا یا اذان جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرنا۔ حوالہ الجمعة ما بين الأذان الأول إلى الإِقامة إلى انصراف الإِمام ، لأن الله يقول :﴿ يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر ﴾ إلى ﴿ وذروا البيع ﴾ (الدر المنثور،الجمعة:۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ(ترمذي بَاب النَّهْيِ عَنْ الْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ ۱۲۴۲) بند