انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حماد بن سلمہؒ اس نام کے یہ دوسرے بزرگ ہیں،جن کا شمار ممتاز اتباع تابعین میں ہوتا ہے علم وفضل کے ساتھ ان کا خاص امتیاز ان کا زہد واتقا اور تدوین حدیث ہے۔ حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ: ھوااول من صنف التصانیف مع ابن ابی عروبۃ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی:۱/۱۸۲) یہ ان اشخاص میں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے سعید بن ابی عروبہ کے ساتھ تصنیف وتالیف میں حصہ لیا۔ نام ونسب حماد نام اور ابو سلمہ کنیت تھی یہ بنو تمیم کے غلام تھے۔ (صفوۃ الصفوہ:۳/۲۷۳) تحصیل علم یہ تو پتہ نہیں چلتاکہ ان کی ابتدائی تعلیم کہاں شروع ہوئی،مگر اس وقت بصرہ دینی علوم کا ایک اہم مرکز شمار کیا جاتا تھا،وہاں علومِ دینیہ کے علاوہ ادب ولغت اورنحو وصرف کا بھی چرچا تھا،اس لیے اغلب ہے کہ حماد نے بھی عام رواج کے مطابق ان تمام علوم میں ضرور کمال حاصل کیا ہوگا؛چنانچہ ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں: کان فصیحاً مفوھًا اماماً فی العربیۃ (شذرات الذہب:۱/۲۶۲) وہ فصیح بولنے والے اورعربیت کے امام تھے۔ امام ذہبیؒ نے دوسرے القاب کے ساتھ النحوی بھی لکھا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۲) شیوخ ان کے اساتذہ کی فہرست بہت طویل ہے،جس میں بے شمار ممتاز تابعین بھی شامل ہیں، چند تابعین کے اسمائے گرامی شمار کرانے کے بعد حافظ ابن عسقلانی لکھتے ہیں: وخلق کثیر من التابعین فمن بعدھم (تہذیب التہذیب:۳/۱۲) ان کے علاوہ تابعین کے ایک کثیر گروہ سے انہوں نے استفادہ کیا ہے اس طرح ان کے بعد کے لوگوں سے بھی۔ چنانچہ انہوں نے مختلف اساتذہ سے کسبِ فیض کیا اوران کی بے شمار حدیثوں کے حافظ اور فقہ وفتاوٰی کے وارث بن گئے،بالخصوص حدیث میں وہ مشہور تابعی شیخ ثابت البنانی اورحمید الطویل کی روایات کے خاص حامل تھے۔ (ایضاً) تلامذہ زندگی کا بیشتر حصہ بصرہ میں گزارا اور وہیں انہوں نے درس وافادہ کی مجلس گرم کی،ان کے حلقۂ درس میں بلاشبہ لا تعداد لوگوں نے فقہ وحدیث کی تحصیل کی،مشہور اور ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں: ابن جریح،شعبہ بن الحجاج،یہ دونوں حضرات عمر میں حماد سے بڑے تھے اور شعبہ تو امامِ وقت تھے بایں ہمہ انہوں نے ان سے استفادہ کیا تھا، عبداللہ بن مبارک ، عبد الرحمن بن مہدی،یحییٰ بن سعید القطان،امام ابو داؤد طیالسی حدیث کے تمام مجموعوں ہی میں حضرت حماد بن سلمہ کی روایتیں موجود ہیں،خصوصیت سے ابوداؤد الطیالسی نے،جوان کے تلمیذ رشید ہیں، اپنی مسند میں کئی سوروایتیں ان کے واسطے سے نقل کی ہیں، ایک مشہور اور طویل روایت ملاحظہ ہو۔ امام ابو داؤد طیالسی کہتے ہیں کہ ہم نے حماد بن سلمہ،قیس ابن الربیع اورابوعوانہ تینوں صاحبان نے بواسطہ سماک بن حرب عن ابن المعتمر الکنانی حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ: جب ان کو رسول اللہ ﷺ نے یمن کا قاضی بناکربھیجا توان کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ کچھ لوگوں نے شیر کو پھنسانے کے لیے ایک گڑھا کھودا اورجب شیراس میں گراتو اس کو دیکھنے کے لیے بڑاہجوم ہوا،ہجوم میں دھکاکھاکر ایک شخص گڑھے میں گرااور گرتے وقت اس نے دوسرے شخص کا سہارا لینے کی کوشش کی؛چنانچہ وہ جھٹکاکھاکر گراچاہتا تھا کہ اس نے تیسرے کو پکڑ لیا اور تیسرے نے چوتھے کو اس طرح چاروں گِر پڑے اور شیر نے ان سب کو پھاڑ ڈالا اور وہ مرگئے،یہ اشخاص جن جن قبائل کے تھے،ان میں خون بہا کے لیے شدید اختلاف ہوا اور نوبت جنگ کی پہنچ گئی،حضرت علی کو اطلاع ہوئی تو وہ موقع پر پہنچے اور سمجھایاکہ کیا تم چاہتے ہوکہ چار آدمیوں کی جگہ دوسومزید آدمیوں کا خون بہہ جائے،اگر تم راضی ہو تو میں فیصلہ کردوں،ورنہ پھر یہ معاملہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کرو، وہ لوگ آپ کے فیصلہ پر راضی ہوگئے، آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے گڑھا کھودا ہے وہ دیت ادا کریں اوردیت اس طرح تقسیم ہوگی کہ پہلے شخص کے ورثہ کو ۱/۴ دیت،دوسرے کے ورثاء ۱/۳،تیسرے کے ورثا۱/۲،اورچوتھے کو پوری دیت؛چنانچہ بعض لوگ تو اس فیصلہ پر راضی ہوگئے اور بعض راضی نہیں ہوئے،اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں قصہ لے کر حاضر ہوئے،آپ نے فرمایا کہ میں اس کا فیصلہ کروں گا،اسی اثنا میں ایک شخص نے کہا کہ حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ کیا ہے،آپ نے فرمایا کہ "القضا کما قضیٰ علی"یعنی حضرت علیؓ نے جو فیصلہ کیا وہی صحیح ہے۔ یہ تو حماد کا بیان ہے اورقیس جو دوسرے راوی ہیں کہتے ہیں کہ: قاضیٰ رسول اللہ ﷺ قضاء علیؓ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کے فیصلہ کو نافذ فرمایا۔ اسی طرح اور بہت سی احادیث ہیں،جن کے راوی محض حماد بن سلمہ ہیں،وہ حدیث کے بیان کرنے میں غایت درجہ محتاط تھے، اسی احتیاط کا یہ نتیجہ تھاکہ انہوں نے ارادہ کرلیا تھا کہ حدیث نبوی کی روایت بالکل ترک کردیں،مگران کے استاد ایوب سختیانی نے خواب میں انہیں روایتِ حدیث کا حکم دیا،تووہ آمادہ ہوگئے؛چنانچہ حافظہ ذہبی خود حمادبن سلمہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ: ماکان من نیتی ان احدث حتی قال لی ایوب فی النوم حدث (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۳) حدیث بیان کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا حتیٰ کہ ابوایوب نے مجھے خواب میں تحدیث کا حکم دیا۔ ابن مدینی کا بیان ہے کہ یحییٰ بن ضریس کے پاس دس ہزار ایسی حدیثیں تھیں،جو حماد بن سلمہ سے مروی ہیں۔ (شذرات الذہب:۱/۲۶۲) ذریعہ معاش امامِ وقت ہوتے ہوئے وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے،مگر یہ کاروبار بھی محض رزق کفاف کے لیے تھا؛چنانچہ سوار بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ: کنت اتی حماد بن سلمۃ فی سوقہ فاذااربح فی ثوب وقامہ (ایضاً) میں بازار میں حماد بن سلمہ کی دکان پر آیا کرتا تھا، جب کسی کپڑے میں ایک دو حبہ فائدہ ہوگیا،وہ فوراً دوکان اٹھادیتے تھے۔ یعنی جہاں سدرمق کا انتظام ہواکاروبار بند کردیا۔ ہم عصر علماء کی رائے حفظ و ثقاہت میں حماد بن سلمہ کم ازکم اپنے معاصرین میں مفقودالنظیر تھے،مگرآخرعمر میں سوءِ حفظ کی شکایت پیدا ہو گئی تھی،اس لیے محدثین نے ان کی روایتوں پر جرح کی ہے،امام بخاری نے ان سے روایت تو نہیں کی ہے؛ مگران سے استشہاد کیا ہے،جس سے حماد بن سلمہ کی ثقاہت کا ثبوت بہم پہنچتا ہے،امام مسلم نے ان سے متعدد روایتیں کی ہیں۔ امام بیہقی لکھتے ہیں: هو احد ائمة المسلمين إلا أنه لما كبر ساء حفظه فلدا تركه البخاري وأما مسلم فاجتهد وأخرج من حديثه عن ثابت ما سمع منه قبل تغيره (تہذیب التہذیب،باب الجزء الثالث:۳/۱۳) وہ مسلمانوں کے ایک امام ہیں مگر بڑھاپے میں ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا، اسی لیے امام بخاری نے ان سے روایتیں نہیں کی ہیں،مگر امام مسلم نے اجتہاد کیا اورسوءِحفظ سے پہلے کی جوان کی روایتیں ثابت البنانی کے واسطے سے ہیں ان کو انہوں نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ کچھ تو سوءِ حفظ کی وجہ سے اورکچھ اس وجہ سے کہ ان کی کتابوں میں کچھ لوگوں نے الحاق کردیا تھا، ان کی روایتیں بعض محدثین کی نظر میں مشتبہ ہوگئی تھیں، سوء حفظ کے بارے میں امام بیہقی کی رائےاوپر گذر چکی، الحاق کے بارے میں امام عبد الرحمن بن مہدی کا بیان ہے کہ: وکانوا یقولون انھا دست فی کتبہ لوگوں کا خیال ہے کہ حماد بن سلمہ کی کتابوں میں الحاق کیا گیا ہے۔ ان کا ایک ربیب ابن ابی العوجاء نامی تھا، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: فکان یدس فی کتبہ ان کی کتابوں میں کچھ ردوبدل کیا کرتا تھا۔ تاہم ائمہ حدیث نے حماد بن سلمہ کے فضل وکمال کا کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جس شخص کو حماد بن سلمہ کی بُرائی کرتے ہوئے دیکھو،اس کے اسلام کو مشتبہ سمجھو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۳)حافظ ابن حجر نے بھی قریب قریب اسی طرح کا ایک قول نقل کیا ہے۔ (تہذیب :۳/۱۵) علاوہ ازیں ابن عدی، عجلی،نسائی وغیرہ نے بھی ان کی توثیق کی ہے ابن عدی کے الفاظ ملاحظہ ہوں: وحماد من اجلة المسلمين وهو مفتي البصرة وقد حدث عنه من هو أكبر منه سنا وله أحاديث كثيرة وأصناف كثيرة ومشائخ (ایضاً) اور حماد اجلہ مسلمین میں سے تھے، بصرہ کے مفتی تھے، ان سے ان کے سن رسیدہ لوگوں نے روایتیں کی ہیں ان سے بکثرت اورمختلف النوع حدیثیں مروی ہیں اور ان کے مشائخ بھی قابلِ ذکر ہیں۔ زہد وعبادت علم وفضل کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کا سازہد واتقاء اورعبادت وریاضت زمہرہ ٔتابعین اوراتباع تابعین کی ایک عام خصوصیت تھی ؛چنانچہ حماد بن سلمہ بھی ان صفاتِ ملکوتی کے اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے،شہاب بن معمر کہتے ہیں کہ حماد اپنے وقت کے ابدال تھے،ایک دوسرے معا صر عفان کا بیان ہے کہ: قد رأیت من ھوا عبد من حماد بن سلمۃ ولکن ما رایت اشدمواظبۃ علیٰ بخیر وقرأت القرآن والعمل للہ من حماد بن سلمۃ (تہذیب التہذیب:۳/۱۳) میں نے حماد بن سلمہ سے زیادہ عبادت کرنے والوں کو دیکھا ہے مگر ان سے زیادہ تسلسل اوریکسوئی کے ساتھ بھلائی کرنے والا تلاوت قرآن کرنے والا اورہرکام اللہ ہی کے لیے کرنے والا حماد بن سلمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ امام عبدالرحمن بن مہدی جن کا زہد واتقاء ،ضرب المثل ہے،بیان فرماتے ہیں کہ حماد بن سلمہ کے عمل کا یہ حال تھا کہ اگر ان سے یہ کہا جائے کہ کل آپ کو موت آ جائے گی تو اس سے زیادہ عمل کی ان کے لیے گنجائش نہیں ہوگی (صفوۃ الصفوۃ:۳/۲۳۷) ابن حبان کہتے ہیں کہ: ان کا شمار مستجاب الدعوات عابدین میں ہوتا ہے وہ اپنے زمانے کے اقران میں فضل وکمال دین وعبادت میں ممتاز تھے،سنت کے سخت پابند اوراہلِ بدعت کے اثرات کو ختم کرنے میں انتہائی کوشاں تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱۸۳) خود فرمایا کرتے تھے کہ جوحدیث نبوی کو غیر اللہ کے لیے (یعنی عزت ووجاہت کے حصول کے لیے)حاصل کرتا ہے،وہ خدا سے فریب کرتا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۳) وقت کی قدر ایک بار موسیٰ بن اسماعیل نے اپنےشاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں نے حماد بن سلمہ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا،تو یہ سچ کہوں گا وہ ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے تھے،یا تلاوتِ قرآن کرتے یا تسبیحات پڑھتے رہتے تھے،یا پھر نماز میں مشغول رہتے،انہوں نے پورے دن کو انہی کاموں کے لیے تقسیم کررکھا تھا۔ (صفوۃ الصفوۃ لابن جوزی:۳/۲۷۴) خدائے عزوجل کے یہاں ان کے اعمالِ صالحہ کی مقبولیت ہی کی یہ علامت تھی کہ ان کا انتقال مسجد میں بحالتِ نماز ہوا،یونس بن محمد کا بیان ہے کہ: مات حمادبن مسلمۃ فی المسجد وھو یصلی (ایضاً،شذرات الذہب:۱/۲۶۲) حماد بن سلمہ کی وفات مسجد میں بحالتِ نماز ہوئی استغناء،اظہار حق اورامراء کی صُحبت سے گریز حماد بن سلمہ کی کتاب زندگی کا ہر باب ہی بڑا تابناک ہے،زہد وعبادت دنیا اوراہل دنیا سے استغناء اورامراء کی صحبت سے گریز زمرۂ تبع تابعین کی ایک عمومی خصوصیت تھی،حمادبن سلمہ اس خصوصیت وامتیاز میں بھی نہ صرف ان کے شریک وسہیم تھے؛بلکہ ممتاز مقام رکھتے تھے اس سلسلہ میں محدث ابن جوزیؒ نے ان کا ایک واقعہ بہت تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے جس سے حماد بن سلمہ کے زہد واتقا اورخشیتِ الہیٰ کا پورا پورا اندازہ ہوجاتا ہے،ذیل میں اس واقعہ کی تلخیص درج کی جاتی ہے۔ مقاتل بن صالح الخراسانی کا بیان ہے کہ میں حماد بن سلمہ کے پاس گیا تو ان کے گھر میں ایک چٹائی کے علاوہ کچھ نہ پایا،اسی پر بیٹھے قرآن کی تلاوت کررہے تھے، ایک چمڑے کا توبڑا تھا،جس میں ان کا سارا علم (یعنی روایات حدیث نبوی)بند تھا، ایک وضوکا برتن تھا جس سے وضو کرتے تھے، ان کا بیان ہے کہ وہ ایک دن موجود تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا،انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دیکھو بیٹی کون ہے، وہ واپس آکر بولی کہ محمد بن سلیمان کا قاصد(غالباً یہ بصرہ کا امیر تھا)فرمایا کہ جاؤ کہدو کہ وہ تنہا میرے پاس آئے وہ قاصد آیا اور اس نے ایک خط پیش کیا جس کا مضمون یہ تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم،یہ خط محمد بن سلیمان کی طرف سے حماد بن سلمہ کے نام : "اما بعد! خد اآپ کو اسی طرح سلامت رکھے جس طرح اس نے اپنے اولیا اور اطاعت گزاروں کو سلامت رکھا ہے،ایک مسئلہ درپیش ہے اگر آپ تشریف لائیں تو اس بارے میں آپ سے استفادہ کرتا والسلام یہ خط ملا تو آپ نے پڑھ کر لونڈی سے کہا کہ قلم ودوات لاؤ اور اس کی پشت پر یہ جواب لکھ دو: اما بعد!آپ کو بھی خدا اسی طرح سلامت رکھے جس طرح اپنے دوستوں اور فرمانبرداروں کو سلامتی عطا کرتا ہے،میں نے بہت سے ایسے علماء کی صحبت اختیار کی ہے جو کسی کے پاس جایا نہیں کرتے (اس لیے میں بھی معذور ہوں)اگر آپ کوکوئی مسئلہ سمجھنا ہے، تو آپ خود تشریف لے آئیں اورجو دریافت کرنا چاہیں کریں اورہاں اگر آنے کا ارادہ ہو تو تنہا تشریف لائیے گا، آپ کے ساتھ خدم وحشم نہ ہوں ، ورنہ میں آپ کے ساتھ اوراپنے ساتھ خیر خواہی نہ کرسکوں گا والسلام۔ قاصد یہ جواب لے کر واپس چلا گیا،راوی کا بیان ہے کہ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے پھر دروزہ کھٹکھٹایا،لونڈی کو حکم دیا کہ دیکھو کون ہے؟اس نے آکر کہا کہ محمد بن سلیمان،فرمایا کہدو کہ آجائیں مگر تنہاآئیں؛چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوا اورسلام کرکے بیٹھ گیااورتھوڑی دیر بعد بولا :کیا وجہ ہے کہ جب بھی میں آپ کے سامنے ہوتا ہوں میرے اوپر خوف ودہشت طاری ہوجاتا ہے،حماد بن سلمہ نے ثابت البنانی کے واسطے سے حضرت انس کی زبانی یہ حدیث بیان کی کہ رسول اکرمﷺکا ارشاد ہے کہ جب عالم اپنے دین کے ذریعہ خدا کی خوشنودی چاہتا ہے تو اس سے ہرچیز ڈرنے لگتی ہےاور جب وہ اس سے دنیا کے خزانے چاہتا ہے تو وہ ہرچیزسے ڈرنے لگتا ہے۔ محمد بن سلیمان نے پوری توجہ کے ساتھ یہ باتیں سنیں اور پھر کہا کہ یہ چالیس ہزار درہم حاٖضِر خدمت ہیں انہیں اپنی ضروریات میں صرف فرمائیں حماد بن سلمہ نے کامل استغنا کے ساتھ فرمایاکہ ان کو لے جاؤاورجن لوگوں پر ظلم کرکے انہیں حاصل کیا ہےان کو دے ڈالو وہ بولاکہ بخدا میں یہ اپنے خاندانی ورثہ سے دےرہا ہوں،فرمایامجھے اس کی ضرورت نہیں ہے مجھے معاف کرو،خداتعالی تمہیں معاف کرے تم اس رقم کو تقسیم کردو،وہ بولاکہ میری تقسیم میں اگر کسی مستحق کو نہ ملاتو وہ نا انصافی کی شکایت کرےگا،آپ نے ان سے پھر یہی فرمایا کہ مجھے معاف کرو۔ (صفوۃ الصفوہ لابن جوزی:۳/۲۷۴) اس طویل واقعہ سے حماد بن سلمہ کی زندگی کی کتنی درخشاں اورتابناک تصویرنگاہوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ وفات ۱۶۷ھ میں بصرہ میں ان کی وفات ہوئی(شذرات الذہب:۱/۲۶۲)اور وہیں مدفون ہوئے،حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی روایت نقل کی ہے کہ حماد بن سلمہ کا انتقال ذی الحجہ کے مہینہ میں ہوا (تہذیب التہذیب:۳/۱۳۳)عمر اسی سال کے قریب پائی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۳) تصنیف اوپر ذکر آچکا ہے کہ حماد بن سلمہ کا شمار تبع تابعین کے اس زمرہ میں ہوتا ہے جنہوں نے تالیف وتدوین کی خدمات انجام دی ہیں،مگر افسوس ہے کہ ان کی تصنیفات کی پوری تفصیلات نہیں ملتیں،صاحب شذرات الذہب نے صرف اتنا لکھا ہے کہ: لہ تصانیف فی الحدیث (شذرات الذہب:۱/۲۶۲) ان کے ممتاز شاگرد ابو داؤد الطیالسی کہتے تھے کہ حماد بن سلمہ کے پاس قیس کی کتاب کےعلاوہ کوئی دوسری کتاب نہیں تھی،اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رقمطراز ہیں: یعنی کان یحفظ علمہ (تہذیب التہذیب:۳/۱۵) یعنی وہ قیس کے علم کے حافظ تھے۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ قیس کی روایتوں سے انہوں نےجو مجموعہ تیار کیا تھا، وہ ضائع ہوگیا،تو وہ اپنے حافظہ سے روایت کرنے لگے۔ اس تفصیل سے بہر حال اتنی بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ حماد بن سلمہؒ نے جمع و تدوین کا کچھ نہ کچھ کام کیا تھا،لیکن مکمل تفصیلات متداول تذکروں میں نہیں ملتیں۔ (ایضاً:۱۳)