انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بناتِ طاہرات رضی اللہ عنھن حضرت زینب رضی اللہ عنہا نام ونسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں بعثت سے دس برس پہلے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۰/سال کی تھی پیدا ہوئیں۔ نکاح ابوالعاص بن ربیع لقیط سے جوحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خالہ زاد بھائی تھے نکاح ہوا۔ عام حالات نبو ت کے تیرہویں سال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تواہل وعیال مکہ میں رہ گئے تھے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی اپنی سسرال میں تھیں، غزوۂ بدر میں ابوالعاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے تھے، عبداللہ بن حیر رضی اللہ عنہ انصاری نے ان کوگرفتار کیا اور اس شرط پررہا کئے گئے کہ مکہ جاکر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کوبھیج دیں گے۔ (طبقات:۸/۲۰) ابوالعاص نے مکہ جاکر حضرت زینب رضی اللہ عنہاکواپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا؛ کیونکہ کفار کے تعرض کا خوف تھا، کنانہ نے ہتھار ساتھ لے لیے تھے، مقام ذی طوی میں پہنچے توقریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کونیزہ سے زمین پرگرادیا، وہ حاملہ تھیں، حمل ساقط ہوگیا، کنانہ نے ترکش سے تیرنکالے اور کہا کہ اب اگرکوئی قریب آیا توان تیروں کا نشانہ ہوگا، لوگ ہٹ گئے توابوسفیان سردارانِ قریش کے ساتھ آیا اور کہا تیرروک لوہم کوکچھ گفتگو کرنی ہے، انہوں نے تیرترکش میں ڈال دیئے، ابوسفیان نے کہا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ سے جومصیبتیں پہنچی ہیں تم کومعلوم ہیں، اب اگرتم علانیہ ان کی لڑکی کوہمارے قبضہ سے نکال لے گئے تولوگ کہیں گے کہ ہماری کمزوری ہے، ہم کوزینب رضی اللہ عنہا کے روکنے کی ضرورت نہیں جب شور وہنگامہ کم ہوجائے اس وقت چھپے چوری لے جانا، کنانہ نے یہ رائے تسلیم کی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہاکولے کرمکہ واپس آئے، چند روز کے بعد ان کورات کے وقت لے کرروانہ ہوئے، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے بھیج دیا تھا، وہ بطن یاجج میں تھے، کنانہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہاکوان کے حوالے کیا وہ ان کولے کرروانہ ہوگئے۔ (زرقانی:۳/۲۲۳) حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ میں آئیں اور اپنے شوہر ابوالعاص کوحالتِ شرک میں چھوڑا، جمادی الاوّل سنہ۶ھ میں ابوالعاص، قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ۱۷۰/سواروں کے ساتھ بھیجا، مقام عیص میں قافلہ ملا، کچھ لوگ گرفتار کئے گئے اور مال واسباب لوٹ میں آیا، ان ہی میں ابوالعاص بھی تھے، ابوالعاص آئے توحضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کوپناہ دی اور ان کی سفارش سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مال بھی واپس کرادیا، ابوالعاص نے مکہ جاکر لوگوں کی امانتیں حوالہ کیں اور اسلام لائے، اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ میں آئے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کوحالتِ شرک میں چھوڑا تھا، اس لیے دونوں میں باہم تفریق ہوگئی تھی، وہ مدینہ آئے توحضرت زینب رضی اللہ عنہا دوبارہ ان کے نکاح میں آئیں، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی جدید نکاح نہیں ہوا؛ لیکن دوسری روایت میں تجدیدِ نکاح کی تصریح ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کواگرچہ اسناد کے لحاظ سے دوسری روایت پرترجیح ہے؛ لیکن فقہا نے دوسری صورت پرعمل کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی یہ تاویل کی ہے کہ نکاح جدید کے مہر اور شرائط وغیرہ میں کسی قسم کا تغیر نہ ہوا ہوگا اسی لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کونکاحِ اوّل سے تعبیر کیا؛ ورنہ بعد تفریقِ نکاح ثانی ضروری ہے۔ ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہاکے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شریفانہ تعلقات کی تعریف کی۔ (طبقات ابنِ سعد:۸/۲۱) وفات نکاحِ جدید کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا بہت کم زندہ رہیں اور سنہ۸ھ میں انہوں نے انتقال کیا، حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور اُم عطیہ رضی اللہ عنہا نے غسل دیا جس کا طریقہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی خود قبر میں اُترے اور اپنے نوردیدہ کوخاک کے سپرد کیا، اس وقت چہرۂ مبارک پرحزن وملال کے آثار نمایاں تھے۔ (طبقات:۸/۲۴۔ بخاری:۱/۱۶۷۔ مسلم:۱/۳۴۶) اولاد حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے دواولاد چھوڑی، علی اور اُمامہ رضی اللہ عنہم، علی کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن میں وفات پائی؛ لیکن عام روایت یہ ہے کہ سن رشد کوپہنچے، ابن عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی، فتح مکہ میں یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، اُمامہ رضی اللہ عنہا عرصہ تک زندہ رہیں، ان کا حال آگے آئے گا۔ اخلاق وعادات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان کوریشمی چادر اوڑھے دیکھا تھا، جس پر زرد دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ (طبقات:۸/۲۲)