انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تحصیلدارانِ زکوۃ کا تقرر(محرم۹ہجری) آنحضرت ﷺ نے زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے کے لئے عمال کا تقرر فرمایا جو حسب ذیل ہیں : نمبر عامل کا نام قبیلہ/مقام ۱ حضرت مہاجرؓ بن ابی امیہ انصاری صنعاء ۲ حضرت زیادؓ بن لبید انصاری حضر موت ۳ حضرت عدیؓ بن حاتم بنی طئے اور بنی اسد ۴ حضرت مالکؓ بن نویرہ بنی حنظلہ ۵ حضرت علاء ؓ بن حضرمی بحرین ۶ حضرت علیؓ بن ابی طالب خُمس کے متوالے برائے یمن ۷ حضرت زبرقانؓ بن بدر بنو سعد ۸ حضرت قیسؓ بن عاصم بنو اسد ۹ حضرت عیسیہ ؓ بن حصن بنو تمیم ۱۰ حضرت کعبؓ بن مالک بنی غفار ۱۱ بنی عبادؓ بن بشر اشہلی بنی سلیم اور بنی مزینہ ۱۲ حضرت رافعؓ بن مکیت بنی جہینہ ۱۳ حضرت عمرو ؓ بن عاص بنو فزارہ ۱۴ حضرت ضحاکؓ بن سفیان بنو کلاب ۱۵ حضرت بشیرؓ بن سفیان بنو کعب ۱۶ حضرت عبداللہ ؓ بن اللبشیہ ازدی بنو ذبیان ۱۷ حضرت بریدہؓ بن حصیب بنو اسلم آنحضرت ﷺ عمال کو ہدایت فرماتے کہ لوگوں کے بڑھیا مال لینے سے پرہیز کرو اور مسلمانوں سے فرماتے کہ جب عمال تمہارے پاس آئیں تو ان کو اور اپنے مال کو آزاد چھوڑ دو، اگر انہوں نے عدل سے کام لیا تو اپنے لئے اور اگر زیادتی کی تو ان پر وبال ہو گا، آپﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ کو بنی ذبیان کا عامل مقرر فرمایا ، جب وہ اپنے علاقہ جا کر لوٹ آئے تو مال زکوٰۃ علحٰدہ رکھا اور کچھ حصہ اپنے لئے الگ رکھا اورعرض کیا کہ یہ مجھے ہدیتاً پیش کیا گیا ہے ، جب حضور ﷺ نے یہ سنا تو منبر پر تشریف لے گئے اور بعد حمد و ثناء فرمایا" ایک شخص آیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ ہدیہ میرے واسطے ہے ، وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا تا کہ معلوم ہو جاتا کہ اس کو کون ہدیہ دیتا ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو بھی اس مال زکوٰۃ میں سے کچھ لے گاتو وہ قیامت میں اس کو اٹھا کر لائے گا، اگروہ شتر ہوو گا تو بلبلائے گا، گائے ہو گی تو آواز دے گی اور اگر بکری ہو تو ممیائے گی (سیرت احمد مجتبیٰ) سریہ عینیہ ؓ بن حصن فزاری بجانب بنو تمیم (محرم۹ھ) حضرت عینیہؓ بن حصن فزاری پچاس سوار لے کر بنو تمیم کی طرف گئے ، وہ اس وقت سقیا اور بنو تمیم کے علاقہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، یہ سریہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ بنو تمیم نے قبائل کو بھڑکاکر جزیہ کی ادائیگی سے روک دیاتھا، عینیہ ؓ بن حصن رات کو چلتے اور دن کو چھپے رہتے یہاں تک کہ بنو تمیم پر حملہ کردیا، ان کے بہت سے لوگ بھاگ گئے اس کے باوجود گیارہ آدمی ، اکیس عورتیں اور تیس بچے گرفتار ہوئے جنھیں مدینہ لاکر رملہ بنت حارث کے مکان میں ٹھہرایاگیا، ان قیدیوں کی رہائی کے سلسلہ میں بنو تمیم کے دس سردار آئے اور حضور اکرم ﷺ کے پاس جاکر کہا … اے محمد! ہمارے پاس آو، آپﷺ باہر تشریف لائے تو یہ لوگ آپﷺ سے باتیں کرنے لگے، پھر آپﷺ ان کے ساتھ ٹھہرے رہے ، ظہر کی نماز کے بعد مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ گئے ، انھوں نے فخریہ انداز میں مقابلہ کی خواہش کی اور اپنے خطیب عطارد بن حاجب کو پیش کیا ، اس نے تقریر کی، رسول اکرم ﷺ نے خطیب اسلام حضرت ثابتؓ بن قیس بن شماس کو حکم دیا اور انھوں نے جوابی تقریر کی، اس کے بعد انھوں نے اپنے شاعر زبر قان بن بدرکو آگے بڑھایا جس نے کچھ فخریہ اشعار کہے ، اس کا جواب شاعر اسلام حضرت حسّانؓ بن ثابت نے دیا، جب دونوں خطیب اور شاعر اپنے اپنے اشعار کہہ چکے تو اقرع بن حابس نے کہا … ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ پُر زور اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے زیادہ پُر گو ہے، ان کی آوازیں ہماری آوازوں سے زیادہ اونچی ہیں اور ان کی باتیں ہماری باتوں سے زیادہ بلند پایہ ہیں، اس کے بعد ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، حضور اکرم ﷺ نے ان کو بہترین تحائف سے نوازا اور ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس کردئیے، وفد بنی عذرہ (صفر۹ھ) یمن سے بنی عذرہ کا وفد آیا جس میں بارہ افراد شامل تھے، یہ لوگ حضرت رُملہ ؓ بنت حارث تجاریہ کے گھر ٹھہرائے گئے تھے ، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا ! تم کون لوگ ہو ؟ انہو ں نے عرض کیا ، آپﷺ سے شرف ہم کلامی حاصل کرنے والے اجنبی نہیں ہیں ، ہم قصی کے بھائی بنی عذرہ ہیں ، ہم وہ ہیں جن کی مدد سے قصی نے خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے نکال باہرکیا تھا، ہماری قصی سے رشتہ داریاں قائم ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے اھلاً و سہلاً ( خوش آمدید )کہتے ہوئے فرمایا :تم اپنے گھر ہی میں آئے ہو ، تمہیں پہچانا نہیں تھا، وہ لوگ چنددن مدینہ میں مقیم رہے اور دین کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اسلام قبول کر لیا ، بوقت رخصت انہیں انعام اور تحائف دئیے گئے ، ان میں سے ایک کو حضور ﷺ نے چادر اوڑھائی ، حضرت زمل ؓ بن عمر کو قوم کی سرداری کا جھنڈا عطا فرمایا،