انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعلیم حدیث کے لیے اہل لوگوں کی تلاش جس طرح طلبہ کے لیے نامور اساتذہ کی تلاش وقت کا ایک اہم موضوع رہا ہے اساتذہ کے لیے بھی اہل اور لائق طلبہ کی طلب ایک فطری اور استاذانہ ذوق رہا ہے، اساتذہ پر پابندی تھی کہ حدیث اس درجہ تک بیان کریں جتنی لوگوں میں سمجھنے کی استعداد ہو، ظاہر ہے کہ پھر پورے علم کے نکھار کے لیے انہیں ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی تھی جہاں وہ جم کر غوامض حدیث، دقائق روایات اور نقد مطالب پر بات کرسکیں، جب آنحضرتﷺ کی نظر کامل حضرت عمرؓ جیسے انسان کے انتظار میں رہی اور امام ابوحنیفہؒ جیسے بزرگ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کوعمربھر کے ساتھی بناگئے تومحدثین کی نظر انتظار بھی لائق تلامذہ کی راہیں دیکھتی رہیں اور یہ اسی لیے تھا کہ تعلیم حدیث کے لیے زیادہ سے زیادہ اہل لوگوں کے حلقے قائم ہوسکیں نااہل لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرنے میں خطرہ یہ ہے کہ وہ ناسمجھی میں کہیں خدا اور اس کے رسول کی ہی تکذیب نہ کر بیٹھیں، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: "حدثوا الناس بمایعرفون أتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ"۔ (بخاری:۱/۴۴) ترجمہ: لوگوں کے سامنے اسی حد تک حدیث بیان کرو کہ وہ سمجھ سکیں، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تمام باتیں جھٹلائی جائیں؟۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے ترجمۃ الباب میں لکھا ہے: "من خص بالعلم قوماً دون قوم کراھیۃ ان لایفہموا"۔ ترجمہ: یہ باب اس سلسلہ میں ہے کہ کوئی شحص کچھ لوگوں کوعلم کے لیے خاص کرلے اور دوسروں کو اس میں نہ آنے دےکہ اسے ان کے ان احادیث کو نہ سمجھنے کا اندیشہ ہو اور وہ اسے ناپسند کرتا ہو۔ سواساتذہ کوحق پہنچتا ہے کہ وہ اہل طلبہ کے لیے کوشاں رہیں اور اساتذ کویہ حق بھی ہے کہ اگرکسی طالبِ علم کے بارے میں اسے پتہ چل جائے کہ وہ بدعمل ہے اور ملحد سوچ کا ہے، اسے اندیشہ ہوکہ وہ علم کا غلط استعمال کرے گا تواسے وہ اپنے حلقۂ درس سے اٹھادے کہ؛ گووہ سبق کوتوسمجھ رہا ہے لیکن تقاضائے سبق کووہ بالکل نہیں سمجھ رہا ہے ایسا طالب علم فتنے کا ایک باب ہے؛ اگریہ کھل گیا تومعلوم نہیں کون کون اس میں داخل ہو؎ سعد یاشیر از یاپندے مدہ کم زاد را کم زاد گرعالم شود گردن زند استاد را اہل طلبہ کی تلاش میں اہلیت صرف فہم وذہانت میں نہ دیکھی جائے، ضبط وحفظ کے پہلو سے بھی اہلیت کا جائزہ لیا جائے، کئی دفعہ ضابطہ وحافظ قسم کے لوگ آگے کسی فہیم وذکی شخص سے روایت کرتے ہیں اور اس تک اپنا علمی سرمایہ پہنچادیتے ہیں اور وہ اس کی گہرائیوں میں اُترکر اس سے بہت سے موتی نکال لاتا ہے تویہ ضبط وحفظ آگے جاکر کام آگیا اور جن حضرات میں یہ دونوں صفتیں ہوں تووہ پہلے ہی ایک بڑی سعادت پاگئے؛ تاہم یہ ضروری ہے کہ غوامض حدیث ان لوگوں کے سامنے نہ کھولے جائیں جوانہیں نہ سمجھ کر کسی اور فتنے میں مبتلا ہوجائیں، علم ہمیشہ اپنے مناسب حلقوں میں پھیلتا ہے نامناسب حلقوں سے اس میں ظلمت آتی ہے، حضرت علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: "الأسرار الإلهية لايجوز كشفها إلاللخواص خوفا من أن يسمع ذلك من لاعلم له فيتكل عليه..... يجب أن يخص بالعلم قوم فيهم الضبط وصحة الفهم ولايبذل المعنى اللطيف لمن لايستأهله من الطلبة ومن يخاف عليه الترخص والاتكال لتقصير فهمه"۔ (عمدۃ القاری:۲/۲۰۸) ترجمہ: اسرار الہٰیہ کوخواص کے سوا اور کسی کے سامنے نہ کھولنا چاہئے، اندیشہ ہے کہ انہیں وہ لوگ سن پائیں جوان باتوں کو نہیں جانتے اور ان پر کوئی اور مشکل آن پڑھے..... سو چاہئے کہ تعلیم کے لیے ایسے لوگوں کوچنا جائے جن میں ایسے (علم کو) ضبط کرنے کی اہلیت اور صحیح سمجھنے کی قابلیت ہو اور عالم باریک بات کوان طلبہ کے سامنے عام نہ کرے جواس کے اہل نہیں اور خدشہ ہوکہ وہ آسانی اور سستی کی راہ لیں گے کہ ان کا فہم ان تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ یہ بات حقائق وخواص اور مسائل ذات وصفات کی حد تک ہے؛ جہاں تک مطلق تعلیم دین کا تعلق ہے حدیث ہرایک تک پہنچانا اپنی جگہ ضروری ہے۔