انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان یوسف ثالث یوسف ثالث نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے ایک سردار عبداللہ کو فردی نند کے پاس بھیج کر مدت صلح کو دو سال تک کے لئے وسیع کرالیا، جب یہ دو سال کی مدت ختم ہونے لگی تو سلطان یوسف ثالث نے اپنے بھائی علی کو شاہ قسطلہ کے پاس بطور سفیر بھیج کر مدتِ صلح میں اور توسیع چاہی، عیسائیوں نے سلطان کی اس صلح جوئی کو کمزوری پر محمول کرکے کہا کہ اگر تمہارا سلطان ہم کو خراج دینا قبول کرے تو ہم اس درخواست کو منظور کرسکتے ہیں،علی نے عیسائیوں کی اس درخواست کو نامنظورکرکے غرناطہ کی جانب مراجعت کی،اس کے بعد فردی نند نے فوجِ گراں لے کر حدودِ سلطنت غرناطہ پر حملہ کیا،نہایت سخت وشدید جنگ ہوئی، اورایک حصہ سلطنتِ غرناطہ کا عیسائیوں کے قبضہ میں چلاگیا،ابھی یہ لڑائی ختم نہ ہوئی تھی کہ سلطنتِ فاش (مراقش) کے ایک لشکر نے اپنے شہزادہ ابو سعید کی قیادت میں قلعہ جبل الطارق پر حملہ کیا، اس حملہ کا حال سُن کر سلطان یوسف ثالث نے اپنے بھائی احمد کو فوج دے کر جب الطارق کے بچانے کو روانہ کیا، وہاں دونوں شہزادوں میں صلح ہوگئی اور ابو سعید شہزادہ احمد کے ساتھ بطور مہمان غرناطہ چلا آیا،مراقش کے بادشاہ نے جو شہزادہ ابو سعید کا برا بھائی احمد کو فوج دے کر جبل الطارق کے بچانے کو روانہ کیا،وہاں دونوں شہزادوں میں صلح ہوگئی اور ابو سعید شہزادہ احمد کے ساتھ بطور مہمان غرناطہ چلاآیا، مراقش کے بادشاہ نے جو شہزادہ ابو سعید کا بڑا بھائی تھا، یوسف ثالث کو لکھا کہ کسی طرح ابو سعید کو وہیں قتل کرادو، یوسف ثالث نے ابو سعید کا بڑا بھائی تھا، یوسف ثالث کو لکھا کہ کسی طرح ابو سعید کوہیں قتل کرادو،یوسف ثالث نے ابو سعید کو اُس کے بھائی کا خطہ دکھایا اوراس کو بتایا کہ تمہارے بھائی نے تم کو قتل کرانے کے لئے جبل الطارق پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا، ابو سعید نے ۸۲۰ ھ میں سلطان یوسف ثالث سے مدد لے کر اوراندلس ہی میں ہر قسم کا سامان مہیا کرکے مراقش پر حملہ کیا اوراپنے بھائی کو بے دخل کرکے خود تخت نشین ہوا اوراپنے محسن سلطان یوسف ثالث کا شکریہ ادا کیا۔ اسی سال یعنی ۸۲۰ھ میں جان بادشاہ قسطلہ نے بالغ ہوکر عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی اوراپنے چچافردی نند کو معزول کردیا،اوراپنی ماں کے مشورے کے موافق یوسف ثالث سے صلح قائم کی یوسف ثالث اس قدر منصف مزاج اورعادل شخص تھا کہ اکثر عیسائی سردار اپنے آپس کے نزاعوں میں یوسف ثالث ہی کو حکم قرار دیتے،اوراس کے فیصلے کو بخوشی قبول کرلیتے تھے، سلطان یوسف ثالث نے ۸۲۲ھ میں اس جہانِ فانی سے کوچ کیا، اُس کے بعد اس کا بیٹا محمد ہشتم تخت نشین ہوا۔ سلطان محمد ہشتم نے تخت نشین ہوتے ہی سلطنتِ قسطلہ اورسلطنتِ مراقش دونوں سے صلح ودوستی کے عہد ناموں کی تجدید کی اورامیر یوسف کو جس کے بزرگ غرناطہ کے قاضی ہوتے آئے تھے،اپنا وزیر اعظم بنایا،یہ وزیر بڑا لائق شخص تھا، مگر محمد ہشتم نے نا اہلوں کی صحبت اورسفلہ پروری اختیار کی جس سے رعایائے غرناطہ بہت بددل ہوئی،آخر محمد نہم نے موقع پاکر غرناطہ پر قبضہ کرلیا، محمد ہشتم غرناطہ سےبھاگ کر اورایک غریب ملاح کی شکل بناکر ابو الفارس بادشاہ تو نس کے پاس چلاگیا،ابو الفارس نے اس کو عزت وتکریم کے ساتھ اپنے پاس رکھا اورمددینے کا بھی وعدہ کیا۔