انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جانثاروں کی تقریریں اس تقریر پر تمام اعزہ نے یک زبان ہوکر جواب دیا کیا ہم صرف اس لئے چلے جائیں کہ آپ کےبعد زندہ رہیں؟ خداہم کو یہ دن نہ دکھائے،اس جواب پر حضرت حسینؓ نے بنو عقیل سے فرمایا کہ مسلم کا قتل تمہارے لئے بہت ہوچکا ہے اس لئے تم کو اجازت دیتا ہوں کہ تم لوگ لوٹ جاؤ ؛لیکن باحمیت بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟کیا یہ کہیں گے کہ اپنے سردار،اپنے آقا اورابن عم کو چھوڑآئے ان کے لئے ایک تیر بھی نہ چلایا،ایک نیزہ بھی نہ مارا ،تلوار کا ایک دھار بھی نہ کیا اور معلوم نہیں ان کا کیا حشر ہو؟ خدا کی قسم ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے ،ہم لوگ جان مال اوراہل وعیال سب آپ کے اوپر سے فدا کردیں گے،آپ کے ساتھ لڑیں گے ،جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا،آپ کےبعد جینا بے کار ہے۔ بنو عقیل کے بعد مسلم بن عوسجہ اسدی نے اٹھ کر کہا کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں اورخدا کے سامنے آپ کے اداکے حق کا عذر نہ کریں؟ خدا کی قسم میں اس وقت تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا جب تک دشمنون کے سینوں میں نیزہ نہ توڑلوں اورتلوار نہ چلالوں، خدا کی قسم اگر میرے پاس اسلحہ بھی نہ ہوتا تو دشمنوں سے پتھر مار مارکر لڑتا اورآپ کے اوپر سے فدا ہوجاتا ۔ (یہ خطبہ اورجوابات ابن اثیر:۴/۴۸،۴۹ سے ماخوذ ہیں) مسلم بن عوسجہ کے بعد سعد بن عبداللہ حنفی نے اٹھ کر تقریر کی کہ خدا کی قسم ہم اس وقت تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے،جب تک خدا کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ہم نے رسول اللہ کے بعد بھی آپ کا فرمان ملحوظ رکھا، اگر مجھ کو یہ بھی یقین ہوتا کہ میں ستر مرتبہ قتل کیا جاؤں گا اور ہر مرتبہ زندہ کرکے آگ میں جلا کر میری خاک اڑادی جائے گی تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑتا تاآنکہ اپنے کو موت کے حوالہ کردیتا نہ کہ ایسی صورت میں جبکہ معلوم ہے کہ مرنا ایک ہی مرتبہ ہے اوراس موت میں ابدی عزت ہے۔ سعد بن عبداللہ حنفی کے بعد زہیر بن قین اٹھ کر بولے، خدا کی قسم مجھے تمنا ہے کہ میں قتل ہوتا، پھر زندہ ہوتا، پھر قتل کیا جاتا، اسی طرح ہزار مرتبہ زندہ ہو ہوکر قتل کیا جاتا اور خدا اس قتل سے آپ کی ذات اورآپ کے اہل بیت کے نوجوانوں کو بچالیتا غرض اس طریقہ سے ہرجان نثار نے اپنی اپنی عقیدت اورجانثاری کا اظہار کیا۔ (طبری:۷/۲۲۲،۲۲۳)