انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو معشر نجیح سندھیؒ م ۱۷۰ھ ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن سندھی دوسری صدی ہجری کے مشہور راوی حدیث گزرے ہیں،عرصہ تک غلامی کی زندگی گزارنے کے باوجود علم وفضل میں نہایت بلند مقام حاصل کیا ،مشہور تابعی ابو امامہ بن سہل بن حنیف کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو روشن کیا تھا۔ وہ سندھی الاصل تھے،لیکن ان کے علم وفضل کی بنا پر عرب ہونے کا دھوکہ ہوتا تھا؛چنانچہ خود ان کی زندگی میں ان کے عرب اورغیر عرب ہونے کی بحث چھڑ گئی تھی، ایک مرتبہ کسی نے انہیں یمنی کہا تو فوراً اس کی تردید کی اورفرمایا: ولاء فی بنی ھاشم احب الی من نسبی فی بنی حنظلہ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۲۸) بنو ہاشم کے غلاموں میں ہونا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ بنو حنظلہ میرا نسب ہو۔ خطیب بغدادی نے خود ان کے صاحبزادے محمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ،میرے والد سندھی تھے،عرب میں مدت تک رہنے کے باوجود زبان میں سندھیت کا اثر آخر وقت تک باقی رہا؛چنانچہ وہ بعض عربی حروف کو صحیح طور پر تلفظ کرنے پر قادر نہ تھے، مثلاً کعب کو ہمیشہ قعب کہا کرتے تھے،ابو نعیم کہتے ہیں: کان ابو معشر سندیاً وکان رجلاً لکن یقول حدثنا محمد بن قعب یرید ابن کعب۔ (کتاب الانساب:۳۱۳،ونزہۃ الخواطر:۱/۴۵) تلفظ صحیح نہ تھا،وہ حدثنا محمد بن قعب کہتے تھےاور قعب سے کعب مراد ہوتی تھی ابتدائی حالات ابو معشر کے ابتدائی حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں،صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ سندھ کی کسی جنگ میں جو مسلمانوں اور سندھیوں میں ہوئی تھی،گرفتار ہوکر حجاز گئے،وہاں بنی مخزوم کی ایک عورت نے خرید کر مکاتب بنالیا،کچھ عرصہ کے بعد خلیفہ مہدی کی ماں نے رقمِ کتابت ادا کرکے آزاد کردیا (طبقات ابن سعد:۵/۳۰۹) مدینہ میں عرصہ تک رہنے کی وجہ سے مدنی بھی مشہور ہیں۔ تحصیلِ علم ابو معشر کی زندگی کا کافی حصہ متعدد خاندانوں میں غلامی کرتے گزرا ،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مالکوں نے انہیں تحصیل علم کے پورے مواقع بہم پہنچائے، اس طرح وہ مدینہ منورہ اوردیگر مقامات کے چشمائے علم سے سیراب ہوئے اور علمِ حدیث مغازی اور فقہ میں کمال پیدا کیا بالخصوص فنِ مغازی میں ان کا پایہ درجہ امامت تک پہنچا ہوا ہے۔ ابو معشر کے شیوخ میں درجِ ذیل ممتاز نام ملتے ہیں۔ محمد بن کعب القرظی،نافع مولیٰ بن عمر،سعید المقبری،محمد بن المکندر،ہشام بن عروہ،ابی بردہ بن ابی موسیٰ،موسیٰ بن یسار، محمد بن قیس (تاریخ بغداد:۱۳/۴۲۷،وتہذیب التہذیب:۱۰/۴۲۰) حافظ ابن حجر نے مشہور تابعی سعید بن المسیب کو بھی ان کے شیوخ میں شمار کرایا ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ان کے استاذ سعید بن المسیب نہیں،سعید المقبری تھے،علامہ ذہبی نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۲) تلامذہ ابو معشر کے حلقہ درس سے جو طالبانِ علم فارغ ہوکر نکلے ان کی تعداد بے شمار ہے، جس میں بہت سے جلیل القدر ائمہ اورعلماء کے نام ملتے ہیں،چند مشہور اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: سفیان ثوری،یزید بن ہارون ،محمد بن عمر الواقدی،محمد بن بکار، عبدالرزاق، ابو نعیم، لیث بن سعد، وکیع بن الجراح،سعید بن منصور۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۲۰،وتاریخ بغداد:۳/۴۲۷) علم وفضل ابو معشر فنِ مغازی وسیر کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی بلند پایہ تھے،خطیب کا قول ہے کہ وہ فنِ مغازی کے سب سے زیادہ واقف کار تھے۔ (ایضاً:۴۲۹) علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ وہ حافظہ کی کمزوری کے باوجود علم کا مخزن تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۲)بکر بن خلف کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ فصیح آدمی نہیں دیکھا۔ ائمہ کی رائے ابو معشر کے علم وفضل کو تمام ائمہ وعلماء نے سراہا ہے؛چنانچہ محدِّ ث عمر بن عوف اپنے تلامذہ کے سامنے ابو معشر کے متعلق ہشیم کا یہ قول نقل فرمایا کرتے تھے کہ مارأیت مدنیاً یثبہ ولا الیس منہ میں نے ان کے جیسا فہیم وذکی مدنی نہیں دیکھا۔ ابو حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ابو معشر کو پسند کرتے تھے اورفنِ مغازی میں ان کی بصیرت کے قائل تھے، میں ان سے روایت کرتے ہوئے ڈرتا تھا،حتیٰ کہ میں نے امام احمد کو ایک شخص کے واسطہ سے ابو معشر سے روایت کرتے دیکھا تو میں نے بھی ان سے روایت حدیث کے بارے میں اپنے مسلک میں وسعت پیدا کرلی (تہذیب :۱۰/۴۲۰)سیرو مغازی میں انہماک کی وجہ سے بعض ائمہ نے ان کی تضعیف کی ہے، ابن معین کا قول ہے،وہ ضعیف ہیں، مگر زہد و رقاق کی حدیثیں نقل کی جاسکتی ہیں (ایضاً:۴۲۱)ابو حاتم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ابو معشر ثقہ ہیں؟ فرمایا نیک شخص ہیں،گو روایت حدیث میں کمزور ہیں مگر سچے ہیں۔ امام بخاری ومسلم نے اس ضعف کی بنا پر صحیحین میں ان کی کوئی روایت نہیں لی ہے، امام بخاری نے تاریخ صغیر میں ان کا شمار ضعفاء میں کیا ہے (تاریخ صغیر:۱۹۲)ابوداؤد اورنسائی نے بھی تضعیف کی ہے ،لیکن علامہ نسائی اپنی سنن میں ابو معشر کی روایت سے حجت لائے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۲) لیکن اس کے باوجود ابو معشر پایۂ اعتبار سے بالکل ساقط نہیں ہیں، ابن عدی نے بصراحت بیان کیا ہے کہ ائمہ ثقات نے ان کی روایتیں قبول کی ہیں۔ حدث عنہ الثقات مع ضعفہ یکتب حدیثہ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۲۰) ثقات نے ان سے روایت کی ہے ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جاسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں عبدالرحمن بن مہدی جو جرح وتعدیل کے شہرہ آفاق امام ہیں،وہ بھی ابو معشر سے روایت کرتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس متن کی حدیث کی یاداشت میں ابو معشر کا حافظ کمزور نہیں ؛بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلسلہ اسناد کے یاد رکھنے میں ان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں پھردوسری بات یہ کہ ان کا حافظہ عمر کے آخری ایام میں کمزور ہوا تھا، جیسا کہ بغدادی نے تصریح کی ہے کہ کان ابو معشر تغیر قبل ان یموت (تاریخ بغداد:۱۳/۴۲۹) موت سے کچھ پہلے ابو معشر میں تبدیلی آ گئی تھی اس لئے اس نقص کے پیدا ہونے سے قبل کی روایتیں مقبول اورقابلِ حجت ہیں۔ بغداد میں آمد اوروفات خلیفہ مہدی ان کے علم وفضل کا بڑا قدردان تھا،ان سے اس کی انسیت کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی ماں کے غلام رہ چکے تھے، ایک مرتبہ حج کے موقعہ پر دونوں کا ساتھ ہوگیا،مہدی نے ان کی قدر افزائی کی اورحکم دیا کہ وہ شاہی خیمہ میں بلائے جائیں اور اس قافلہ کے لوگ ان سے فقہ حاصل کریں ،پھر مہدی نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار کا تحفہ پیش کیا،اس کے بعد وہ انہیں ۱۶۰ ھ میں اپنے ہمراہ مدینہ سے بغداد دلایا اور تعلیم کی خدمت ان کے سپرد کی اس کے بعد وہیں مستقل قیام اختیار کرلیا اوررمضان ۱۷۰ ھ میں رحلت فرمائی (شذرات الذہب:۱/۲۷۸ ، العبر فی خبر من غبر:۱/۲۵۸) خلیفہ وقت ہاروں الرشید نے جو اسی سال تخت نشین ہوا تھا نماز جنازہ پڑھائی بغداد کے مقبرہ کبیر میں مدفون ہوئے۔ (الانساب للسمعانی ورق:۳۱۳ طبع قدیم) اولاد صرف ایک صاحبزادے محمد بن ابی معشر تھے،اپنے والد کی طرح وہ بھی صاحب علم و فضل تھے اور مشہور محدث ابو ذئب کے محبوب تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا،ترمذی وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے،ابو معشر کی کتاب المغازی ان ہی کی روایت کی ہوئی ہے، ان کی ثقاہت پر تمام ائمہ متفق ہیں:۹۹ سال کی عمر میں ۲۴۴ ھ میں وفات پائی۔ تصنیف ابو معشر صاحبِ تصانیف بھی تھے، ابن ندیم نے ولہ من الکتب لکھا ہے جس سے خیال ہوتا ہے کہ ان کی تصنیفات ایک سے زائد ہیں لیکن صرف کتاب المغازی ہی کا پتہ ملتا ہے۔ خلیلی کا بیان ہے کہ ائمہ ان کی تاریخ سے استدلال کرتے ہیں، اس بیان سے بظاہر ایسا خیال ہوتا ہے کہ فنِ تاریخ میں بھی ان کی کوئی تصنیف ہے،لیکن دراصل یہ ایک ہی کتاب ہے جس کو خلیلی تاریخ اورابن ندیم کتاب المغازی کہتے ہیں،متقدمین کے نزدیک مغازی،سیر اورتاریخ ایک ہی فن سمجھے جاتے تھے، ابن ندیم لکھتے ہیں: عارف بالاحداث والسیر واحد المحدثین ولہ من الکتب کتاب المغازی (الفہرست:۱۳۶) وہ تاریخ وسیر کے عارف اورمحدث تھے ان کی کچھ کتابیں ہیں جن میں سے ایک کتاب المغازی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے مقدمہ سیرت میں ابو معشر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: "ابو معشر نجیع المدنی (م ۱۷۰ ھ) ہشام بن عروہ کے شاگرد تھے،ثوری اورواقدی نے ان سے روایت کی ہے، گومحدثین نے روایتِ شان کا اعتراف کیا ہے،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ اس فن میں صاحبِ نظر ہیں،ابنِ ندیم نے ان کی کتاب المغازی کا ذکر کیا ہے،کتبِ سیرت میں ان کا نام کثرت سے آتا ہے۔ (سیرت النبی:۱/۲۲)