انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابنِ تیمیہؒ اور ان کا فقہی مسلک ساتویں صدی ہجری کازمانہ انتہائی پرآشوب زمانہ تھا، ایک طرف تاتاریوں کی دہشت گردی وبدامنی اور ان کے وحشیانہ مظالم کے باعث ملک کا سیاسی نظام متأثر تھا تودوسری طرف باطل نظریات، مشرکانہ عقائد بدعات وخرافات اور علمی جمود نے فکری، اعتقادی، علمی اور دینی حقائق پرپردہ ڈال دیا تھا، جس کے نتیجہ میں جہاں سکون وطمانیت مفقود تھا، وہیں جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کا تصور بھی ختم ہوچکا تھا، اس وقت ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جس کی قیادت وسیادت پرآشوب فضا کوخوشگوار ماحول میں تبدیل کرسکے، باطل عقائد کومحوکرکے اسلامی ذوق ومزاج کورواج دے سکے اور شرک وبدعات پرقابوپانے کے لیے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کوانجام دے سکے؛ چنانچہ اللہ نے ایسا حق گواور بے باک قائد اور دردمند مصلح؛ نیز مجدد ومجتہد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی شکل میں پیدا فرمایا۔ نام احمد تقی الدین ابوالعباس، والد ماجد:شیخ شہاب الدین ابوالمحاسن عبدالحلیم، جدامجد، شیخ مجدالدین ابوالبرکات عبدالسلام ابن ابومحمد (ابن تیمیہ (ابوزہرہ):۱۷) ۱۰/ربیع الاوّل ۶۶۱ھ کوشہرحران میں جوفلسفہ کا گہوارہ اور صابی مذہب کا قدیم علمی مرکزرہا ہے پیدا ہوئے۔ (ابن تیمیہ (ابوزہرہ):۱۷) آپ حران کے علمی خاندان جوپہلے سے اپنی علمی قابلیت وصلاحیت اور خاندانی شرافت وبزرگی کی بناء پرمشہور ومعروف تھا اور جسے لوگ استرہ ابنِ تیمیہ کے نام سے جانتے تھے، چشم وچراغ تھے، والد ماجد شہاب الدین عبدالحلیم ایک جلیل القدرعالم، محدث کبیر اور کامیاب مدرس تھے؛ یہی وجہ ہے کہ جامع اموی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا؛ جہاں بڑے بڑے علماء، اصحاب فن، محدثین، محققین اور فقہاء کا ایک بڑا طبقہ موجود تھا، ایسے باکمال ارباب علم کی موجودگی میں منصبِ درس پرفائز ہوکردورانِ درس کسی دوسری کتابوں سے مدد لیے بغیر صرف قوتِ حافظہ پراعتماد کرتے ہوئے درس دینا ان کی وسعتِ علم پرشہادتِ عادلہ ہے، جدامجد مجددالدین ابوالبرکات کا بھی اجلۂ علماء میں شمار ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ بعض اہلِ علم انہیں مجتہد مطلق بھی کہتے تھے۔ ابن تیمیہ کوتمام علوم وفنون میں یکساں کمال اور قدرت حاصل تھی، منطق وفلسفہ ہویاکلام، تفسیر وحدیث ہویازبان وادب، نحو وصرف ہویاتصوف؛ مگرخصوصیت کے ساتھ فقہ اور اصولِ اجتہاد سے خاص دلچسپی اور لگاؤ تھااور ان کی زندگی کے اکثر حصے انہیں علمی فقہی اور اجتہادی مشاغل میں گذرے ہیں، ان کے طرزِ استنباط، طریقہ استدلال اور استخراجِ احکام کی قوت وصلاحیت، اہلِ علم کے درمیان ان کوخاص امتیاز عطا کرتی ہے؛ گوآپ مسلکاً حنبلی تھے اوراکثر مسائل فقہیہ میں اسی مذہب کی پیروی وتقلید بھی کی ہے؛ مگربعض مواقع پرائمہ اربعہ ہی نہیں بلکہ خود امام احمد ابن حنبلؒ کے مذہب سے ہٹ کراپنے اصولِ اجہتاد کی روشنی میں فتویٰ دیا ہے۔ آپ کے نزدیک احکامِ شرعیہ کے مصادپانچ ہیں: (۱)کتاب وسنت، اصل الاصول ہے جس کو نصوص کا نام دیا گیا ہے (۲)فتاویٰ صحابہ، جس میں کسی کا اختلاف نہ ہو (۳)صحابہ کے وہ فتاویٰ جوسنت کے موافق ہوں (۴)حدیثِ مرسل اور حدیثِ ضعیف جس کے موضوع ہونے پرکوئی دلیل موجود نہ ہو (۵)قیاس۔ مگران بنیادی مصادر کے علاوہ کچھ اور ذیلی مصادر استصحاب، مصالحِ مرسلہ اور سدذرائع وغیرہ بھی آپ کے نزدیک معتبر ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کتاب اللہ حجت اولین اوربرہان قاطع ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سنت کی حجیت خود قرآن کریم سے ثابت ہے: "وَمَاكَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا"۔ ترجمہ:اور جب اللہ اور اُس کےرسول کسی بات کاحتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مؤمن مرد کےلئے یہ گنجائش ہے نہ کسی مؤمن عورت کے لئے کہ اُن کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے،اور جس کسی نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔ (الأحزاب:۳۶) "وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ ترجمہ:اور رسول تمہیں جوکچھ دیں،وہ لےلو،اور جس چیز سے منع کریں،اُس سے رُک جاؤ۔ (الحشر:۷) اس بات پربھی اتفاق ہے کہ سنت شارحِ کتاب ہے اور تشریح طلب احکام کا بیان اور اس کے مجمل کی تفسیر وتوضیح ہے (ابنِ تیمیہ:۴۵۵) پس اس حیثیت سے کہ سنت مفسر قرآن ہے، استنباطِ قرآن میں دونوں کا درجہ ایک ہے؛ اسی لیے علامہ ابن تیمیہؒ نے کتاب وسنت کوالگ الگ بیان کرنے کے بجائے ایک ہی ساتھ ذکر کیا ہے؛ مگریہ بات قابل غور ہے کہ احادیثِ احاد کے سلسلہ میں ابنِ تیمیہ کانقطۂ نظر کیا تھا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ائمہ اربعہ کے نقطہ نظر پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ اگرخبرِواحد کتاب اللہ کے موافق نہ ہو؛ بلکہ اس کے متعارض ہو یااس کے عام کوخاص کردیتی ہو تواس صورت میں اس خبرِواحد کوکتاب اللہ کے مقابلے میں ردکردیتے ہیں، شوافع اور حنابلہ ظاہر قرآن کے سنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اس کوبجائے ردکرنے کے ظاہر قرآن کے عام کوسنت سے خاص کردیتے ہیں؛ کیونکہ وہ قرآن کا بیان، شارح اور اس کی تفسیر ہے، ان میں بعض فقہاء نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سنت قرآن پرحکم کی حیثیت رکھتی ہے؛ کیونکہ وہ اس کی تفسیر اور بیان ہے؛ اسی کے ذریعہ اجمال کی تفصیل ہوتی ہے، ناسخ ومنسوخ کا علم ہوتا ہے، مطلق کومقید کیا جاتا ہے؛ غرض امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک استنباط واستخراج میں قرآن وحدیث کا ایک ہی درجہ ہے اور ابنِ تیمیہ بھی اسی کے حامی ہیں؛ اسی لیے انہوں نے اصل اوّل نصوص کوقرار دیا ہے اور کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے، ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اجماع کی یہ تعریف کی ہے: "مَعْنَى الْإِجْمَاعِ أَنْ تَجْتَمِعَ عُلَمَاءُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حُكْمٍ مِنْ الْأَحْكَامِ، وَإِذَاثَبَتَ إجْمَاعُ الْأُمَّةِ عَلَى حُكْمٍ مِنْ الْأَحْكَامِ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ إجْمَاعِهِمْ، فَإِنَّ الْأُمَّةَ لَاتَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْ الْمَسَائِلِ يَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ فِيهَا إجْمَاعًا، وَلَايَكُونُ الْأَمْرُ كَذَلِكَ، بَلْ يَكُونُ الْقَوْلُ الْآخَرُ أَرْجَحَ"۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۱/۴۰۶) ترجمہ:اجماع سے مراد علماء کا احکامِ اسلامی میں سے کسی ایک حکم پرمتفق ہوجانا ہے اور جب امت کسی حکم پرمتفق ہوجائے توکسی کے لیے جائز نہیں کہ اجماع سے اختلاف کرے؛ کیونکہ امتِ مسلمہ کسی گمراہی پرمجتمع نہیں ہوسکتی؛ لیکن بعض لوگ بہت سے مسائل میں یہ گمان کرتے ہیں کہ اس میں اجماع ہوچکا ہے؛ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے؛ بلکہ بعض اوقات دوسرا قول راجح ہوتا ہے۔ گویا ابن تیمیہ کواجماع کے حجت ہونے سے اتفاق ہے؛ البتہ بعض لوگ غیراجماعی مسائل میں بھی بے تکلف اجماع کا دعویٰ کربیٹھتے ہیں، ابن تیمیہ کوان سے اختلاف ہے، ابن تیمیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ گواجماع فی نفسہٖ حجت ہے؛ لیکن عملاً عہد صحابہؓ ہی میں اجماع منعقد ہوا ہے، اس کے بعد اجماع کا انعقاد عملاً نہیں ہوپایا ہے۔ ادلہ شرعیہ میں قیاس کوبھی شمار کیا گیا ہے اور استنباط واستخراج میں اس کوایک اہم اصل مانا گیا ہے؛ چونکہ بعض لوگوں نے سرے سے قیاس کا انکار کیا ہے اور بعض نے غلو سے کام لیا ہے، اس لیے ابنِ تیمیہ کا رویہ قیاس کے بارے میں مثبت اور محتاط ہے، ابنِ تیمیہ کا خیال ہے کہ قیاس نام ہے کسی وصفِ جامع کی بنیاد پرغیرمنصوص پرامرمنصوص کے حکم لگانے کا، ابنِ تیمیہ کے نزدیک وہی قیاس معتبر اور صحیح ہے جوشریعت کے مطابق ہو، اس لیے کہ شریعت کا کوئی حکم خلافِ قیاس نہیں؛ بلکہ کتاب وسنت کے جتنے بھی احکام ہیں وہ تمام موافقِ قیاس ہیں اور جوچیزیں مخالفِ قیاس ہوتی ہیں وہ قیاس فاسد ہے، یہ اور بات ہے کہ لوگوں کواس فساد کا علم نہ ہو۔ نص کومخالفِ قیاس کہنے والے زیادہ ترفقہاء احناف ہیں، ان کے اور ابن تیمیہ کے درمیان جواختلاف ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احناف مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان علت کومشترک مانتے ہیں؛ گویا ان کے یہاں اصل مؤثر علت ہوتی ہےجہاں علت پائی جائے گی، حکم پایا جائے گا، جہاں علت مفقود ہوگی حکم مفقود ہوگا؛ مگرابن تیمیہ اور ابنِ قیم وغیرہ جس وصف کوحکم میں مؤثر مانتے ہیں وہ حکمت ہے، یعنی ایسا وصف مناسب جوشارع کے اغراضِ عامہ سے توافق رکھتا ہو اور اغراضِ عامہ کیا ہیں، مصلحت کا حصول اور مضرت سے حفاظت۔ (حیات احمد بن حنبل، ترجمہ رئیس جعفری:۴۱۲)