انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مرید اللہ تعالیٰ کو ارادہ کی صفت حاصل ہے جس کی وجہ سے کسی چیز کو موجودیا معدوم کرنا ہو تو وہ جس وقت چاہے جب چاہے جس طرح چاہے کرسکتا ہے، لہذا جو چیز ہوتی ہے اس کے ارادے سے ہوتی ہے، ازل میں جوارادہ کرلیا تھااب اسی کے مطابق وہ چیز ہوتی ہے اس کا ارادہ ازلی ہے اور مشیت وارادہ ایک ہی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ" (ھود:۱۰۷) یعنی وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کو اسی وقت کرلیتا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کس چیز کا ارادہ کرے پھروہ چیز نہ ہو ورنہ اللہ کا عاجز ہونا لازم آئیگا اور ایسا ہو نہیں سکتا۔ جب ہم کہتے ہیں"فلاں نے ارادہ کیا"توہم اس سے یہی مراد لیتے ہیں کہ فلاں شخص کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا خیال پیدا ہوااور اللہ تعالی کے معاملات اس طرح ہیں کہ: ۱۔وہ بعض کام اس وقت کرتے ہیں جب اس کام کے پیداہونے کی شرط پائی جاتی ہے،مثلا بادل پیداہونے کے بعد بارش برساتے ہیں تو ایک ایسی نئی چیزوجود میں آتی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ ۲۔بعض کام وہ اس وقت کرتے ہیں جب عالم میں استعداد ہوتی ہے،مثلا بارش ہونے کے بعد جب زمین میں روئیدگی کی استعداد پیدا ہوتی ہے تو وہ سبزہ اگاتے ہیں اور ایک نئی چیزوجود میں آتی ہے۔ ۳۔عالم بالا (اوپر کی دنیا)کے بعض مقامات میں مثلا:حظیرۃالقدس میں ملا اعلی میں یہ حکم الہٰی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اور اس پر اتفاق ہوتا ہے تو اس کے مطابق کائنات میں ایسی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں جو پہلے نہیں تھیں؛انہیں سب صورتوں کا نام ارادہ ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ،باب الایمان بصفاف اللہ:۱/۱۳۵)