انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمرانؓ بن حسین نام ونسب عمران نام، ابو نجید کنیت، نسب نامہ یہ ہے: عمران بن حصین بن عبید بن خلف بن عبدنہم ابن خدیفہ بن جھمہ بن غاضرہ بن جیشہ بن کعب بن عمروالکبعی اسلام عمران سنہ ہجرت کی ابتدا میں مشرف باسلام ہوئے ،ان کے ساتھ ان کے باپ ان کی بہن بھی اس شرف سے مشرف ہوئیں،اسلام لانے کے بعد پھر وطن لوٹ گئے۔ (مستدرک حاکم:۳/۴۷۱) غزوات گو عمران وطن میں رہتے تھے،لیکن ذوق جہاد میں غزوات کے موقع پر مدینہ پہنچ جاتے تھے؛چنانچہ فتح مکہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے اوران کا قبیلہ کا علم ان ہی کے ہاتھ میں تھا (اصابہ:۵/۲۷) اس کے بعد حنین اور طائف کے غزوات میں شریک ہوئے،حضرت ابوبکرؓ کے سریہ میں بھی ہمراہ تھے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۴۳۰) آنحضرتﷺ کی زندگی بھر برابر مدینہ آتے جاتے رہے تھے،آپ کی وفات کا دل پر اتنا اثرہوا کہ مدینہ آنا چھوڑدیا اورگوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کسی چیز میں حصہ نہیں لیا،حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب بصرہ آباد ہوا تو یہاں منتقل ہوگئے اورگھر بنا کر مستقل اقامت اختیار کرلی،حضرت عمرؓ نے فقہ کی تعلیم کی ذمہ داری ان کے سپرد کی۔ (ابن سعد،جزو۷،ق۱،ص۵) حضرت عمرؓ کے بعد جب خانہ جنگی کا دروازہ کھلا تو بہت سے صحابی ا س میں مبتلا ہوگئے؛ لیکن عمران آخر تک اس سے محفوظ رہے۔ (اصابہ:۵/۲۷) بنی امیہ کے زمانہ تک زندہ رہے،زیاد نے خراسان کی گورنری پیش کی، عمران نے انکار کردیا، دوستوں نے پوچھا اتنا بڑا عہدہ کیوں مسترد کردیا، کہا مجھ کو یہ پسند نہیں کہ میں تو اس کی گرمی میں نماز پڑھوں اور تم لوگ اس کی ٹھنڈک میں، مجھ کو خوف ہےکہ جب میں دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوں اس وقت زیاد کا کوئی ناواجب الطاعۃ فرمان پہنچے،ایسی حالت میں اگر اس کی تعمیل کروں تو ہلاک ہوجاؤں اور اگر لوٹ آؤں تو گردن ماری جائے۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۶۶) علالت عمران کی صحت نہایت خراب تھی، آخر میں استسقاء کا مرض ہوگیا تھا،لوگوں نے مشورہ دیا کہ داغنے سے فائدہ ہوگا، لیکن وہ آنحضرتﷺ سے داغنے کی ممانعت سن چکے تھے، اس لیے رضا مند نہ ہوئے،مرض برابر بڑھتا گیا،آخر میں یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ پیٹ میں شگاف ہوگیا،لیکن اس حالت میں بھی وہ فرمانِ رسول کے خلاف عمل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، احباب نے کہا تمہاری حالت دیکھی نہیں جاتی تمہارے پاس کس طرح آئیں،فرمایا نہ آؤ؛ لیکن جو چیز خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے،اس کو میں کسی طرح پسند نہیں کرسکتا (ابن سعد،جلد۷،ق اول،تذکرہ عمران ،شگاف کا تذکرہ اسد الغابہ کی روایت میں ہے، جلد۴:۱۳۸)آخر میں جب تکلیف ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی تو ابن زیاد کے اصرار سے راضی ہوگئے ؛لیکن سخت نادم وشرمسار تھے۔ (اصابہ:۵/۲۷) جب زندگی سے مایوس ہوگئےتو تجہیز وتکفین کے متعلق یہ ہدایت دی کہ جنازہ جلدی جلدی لے چلنا،یہود کی طرح آہستہ آہستہ نہ لے چلنا،جنازہ کے پیچھے آگ نہ جلانا،نالہ وشیوں نہ کرنا ،قبر مربع چار بالشت اونچی رکھنا، دفن کرکے واپس ہوکر کھانا کھانا،نالہ وشیون کے روکنے میں اتنی سختی برتی کہ اپنے متروکہ مال میں بعض اعزہ کو وصیت کی تھی اس وصیت میں یہ شرط کردی تھی کہ جو عورت نالہ وشیوں کرے گی، اس کے متعلق وصیت منسوخ ہوجائے گی۔ (اسد الغابہ:۴/۱۳۸) وفات اسی مرض میں ۵۲ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔ (مستدرک حاکم :۳/۴۷۱) اولاد لڑکوں میں محمد خلف الصدق تھے،باپ کے بعد یہ بصرہ کی مسند قضا پر بیٹھے۔ (ابن سعد،جلد۷،قاول،تذکرہ عمران) فضل وکمال عمران فضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز ترین صحابہ میں تھے،علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں،کان من فضلاء الصحابۃ وفقہا ئھم عمران فضلاء اورفقہائے صحابہ میں تھے(استیعاب:۲/۴۶۸)بصری اصحاب کی جماعت میں کوئی صحابی ان کا ہمسر نہ تھا، محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ بصری صحابیوں میں کوئی عمران سے بلند نہ تھا (مستدرک:۳/۴۷۱) مشہور صاحب علم تابعی حضرت حسن بصری فرماتے تھے کہ عمران بن حصین سے بہتر آدمی ہمارے یہاں نہیں آیا۔ عمران مشرف باسلام ہونے کے بعد اپنے وطن لوٹ گئے تھے،لیکن وقتاً فوقتاً مدینہ جایا کرتے تھے، اس لیے احادیث نبوی کے سننے کے مواقع برابر ملتے رہے، اس لیے ان کے حافظہ میں اتنی حدیثیں محفوظ تھیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو دودنوں تک مسلسل حدیثیں بیان کرتا رہوں اوران میں ایک بھی مکرر نہ ہو (مسند احمد بن حنبل:۴/۴۳۳)لیکن اس علم کے باوجود ان کی مرویات کی تعداد (۱۳۰) حدیثوں سے زیادہ نہیں ہے (تہذیب الکمال:۲۹۵) اس کا سبب یہ ہے کہ روایتِ حدیث میں وہ حد درجہ محتاط تھے،عام طور پر حدیث بیان کرنے سے گریز کرتے تھے اورجب بدرجہ مجبوری اس کی نوبت آتی تو بہت سنبھل کر بیان کرتے،کہا کرتے تھے کہ میں حدیث کم بیان کرتا ہوں کہ میں نے بہت سے رسول اللہ کے ایسے اصحاب کو دیکھا ہے،جنہوں نے میری طرح آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضری دی اور میرے ہی برابر حدیثیں سنیں،لیکن جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے ہیں،تو الفاظ میں کچھ نہ کچھ رد وبدل ضرور ہوجاتا ہے،اگرچہ وہ اچھی نیت سے بیان کرتے ہیں اس لیے مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی کی طرح مجھے بھی دھوکا نہ ہو (مسند احمد بن حنبل:۴/۴۳۳)جس درجہ میں حدیث حفظ ہوتی اس کا بھی اظہار کردیتے ،جس میں حافظہ پر کامل اعتماد نہ ہوتا تو کہتے کہ جہاں تک میرا خیال ہے میں نے صحیح بیان کی اور اگر پورا یقین ہوتا تو کہتے یہ حدیث آنحضرتﷺ کو اس طرح بیان فرماتے ہوئے سنا ہے ان کے تلامذہ میں نجید بن عمران، ابوالاسود، ابورجاء العطاروی،ربعی ابن خروش، مطرف یزید،حکم بن اعرج،زہدم جرمی، صفوان بن محرز،عبداللہ بن رباح، الصاری وغیرہ لایق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۸/۱۱۶) حلقہ درس گو حضرت عمرانؓ حدیثوں کے بیان کرنے میں بہت محتاط تھے،لیکن ان کی اشاعت بھی ضروری فرض تھا،اس لیے احتیاط کے ساتھ اس فرض کو بھی انجام دیتے تھے، اوربصرہ کی مسجد میں مستقل حلقۂ درس تھا، بلال بن سیاف بیان کرتے ہیں کہ مجھ کو بصرہ جانے کا اتفاق ہوا مسجد میں دیکھا کہ لوگ ایک سپید موبزرگ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے ہیں، اوروہ ٹیک لگائے ہوئے،ان لوگوں کو حدیثیں سنارہے ہیں ،دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عمران بن حصین صحابی ہیں۔ (ابن سعد،جلد۷،ق اول،ص:۵) ان کی ذات مرجع خلائق تھی اور بڑے بڑے صحابہ ان کے تفقہ کے قائل تھے، ایک مرتبہ کسی نے آکر پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں، ایسی صورت میں وہ مطلقہ ہوئی یا نہیں، جواب دیا طلاق دینے والا گنہگار ہوا،لیکن عورت مطلقہ ہوگئی ،مستفتی مزید تصدیق کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے پاس گیا اوران کو عمران کا جواب سنایا انہوں نے کہا خدا ہماری جماعت میں ابو نجید کے جیسے بہت سے آدمی پیدا کردے (مستدرک حاکم:۳/۴۷۲)جس راستہ سے گذرتے لوگ مسائل دریافت کرتے،ابو نفرہ کو نماز سفر کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی، اتفاق سے عمران نے مفصل جواب بتایا۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۴۴۰) احترام رسول آنحضرتﷺ کے ساتھ اتنی گہری عقیدت اورآپ کا اتنا احترام تھا کہ جس ہاتھ سے آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اس سے عمر بھر پیشاب کا مقام نہیں مس کیا۔ پابندی اسوۂ رسول عمل میں اسوۂ رسول پیش نظر رہتا تھا، ابن زیاد نے محصل خراج کا عہدہ پیش کیا اس عہدہ کو تو قبول کرلیا، لیکن جب خراج وصول کرکے واپس ہوئے ،تو ایک درہم بھی ساتھ نہیں لائے،پوچھا گیا،خراج کی رقم کیا کی،جواب دیا جس طرح رسول اللہ کے زمانہ میں وصول ہوتا تھا اس طریقہ سے وصول کیا اورجن مصرفوں میں خرچ ہوتا تھا ان میں صرف کردیا۔ اوپر گذر چکا ہے کہ زیاد نے خراسان کی گورنری پیش کی تھی،لیکن آپ نے محض اس لیے اس کے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ زیاد کا ہر واجب وناواجب حکم ماننا پڑیگا،ان کے انکار پر حکم بن عمرو غفاری نے قبول کرلیا،عمران کو معلوم ہوا تو ان کو بلاکر کہا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی ذمہ داری تمہارے سپرد کی گئی ہے ،پھر انہیں مفید پند و نصائح کئے اور آوامر ونواہی پر کار بند ہونے کی ہدایت کرکے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی کہ خدا کی معصیت میں کسی بندہ کی فرماں برداری نہ کرنی چاہیے (مسند احمد بن حنبل:۵/۶۶) یعنی زیاد کی اطاعت میں خدا اور رسول کے خلاف عمل نہ کرنا۔ عام طور پر لباس بہت سادہ استعمال کرتے تھے،لیکن کبھی کبھی تحدیثِ نعمت اور اظہار تشکر کے لیے بیش قیمت کپڑا بھی زیب تن کرلیتے تھے،ایک مرتبہ خلافِ معمول خز کی چادر اوڑھ کرنکلے،اورکہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب خدا کسی بندہ پر احسان وانعام کرتا ہے تو اس کا ظاہری اثر بھی اس پر ہونا چاہیے۔ (ابن سعد،۷،ق۱:۵)