انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتوحات شام امیر معاویہؓ بالکل آخر میں اسلام لائے تھے،اس لئے آنحضرتﷺ کی زندگی میں ان کو کوئی نمایاں کارنامہ دکھانےکا موقع نہ مل سکا،اس کا آغازحضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت سے ہوتا ہے شام کی فوج کشی میں امیر معاویہؓ کے بھائی یزید ایک دستہ کے افسر تھے ارون کی فتح کے سلسلہ میں جب حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار فوج نے عمروبن العاصؓ کو اس کے ساحلی علاقہ پر مامور کیا اوران کے مقابلہ کے لئے رومیوں کا انبوہ کثیر جمع ہوا اورقسطنطنیہ سے امدادی فوجیں آئیں، تو عمرو بن العاصؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے مزید امداد طلب کی اس وقت انہوں نے یزید بن ابی سفیان کو روانہ کیا اس امدادی دستہ کے مقدمۃ الجیش کی کمان معاویہؓ کے ہاتھ میں تھی، اس مہم میں انہوں نے کارہائے نمایاں دکھائے، (فتوح البلدان بلاذری:۱۳۳) اس کے بعد اس سلسلہ کی تمام لڑائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے؛چنانچہ مرج صفر کے معرکہ میں جب عمرو بن العاص کے بھتیجے خالد شہید ہوئے تو ان کی تلوار معاویہؓ کے قبضہ میں آئی۔ (فتوح البلدان بلاذری:۱۲۶) دمشق کی تسخیر کے بعد جب یزید صیدا،عرقہ، جبیل اوربیروت وغیرہ کے ساحلی علاقہ کی طرف بڑھےتوحضرت معاویہؓ اس پیش قدمی میں مقدمۃ الجیش کی رہبری کررہے تھے اورعرقہ تما متران ہی کی کوششوں سے فتح ہوا، اس کے بعد جب حضرت عمرؓ کے آخر عہدِ خلافت میں رومیوں نے شام کے بعض مقامات واپس لے لئے تو معاویہؓ نے ان کو زیر کرکے دوبارہ زیر نگین کیا۔ (ایضا:۱۳۳) مذکورۂ بالا مقامات کی تسخیر کے بعد یزید نے باقی ماندہ علاقہ پر امیر معاویہؓ کو متعین کردیا، انہوں نے نہایت آسانی کے ساتھ تمام قلعے تسخیر کئے اورزیادہ کشت وخون کی نوبت نہیں آنے پائی کہیں خفیف سی جھڑپ ہوجاتی تھی، قیسا ریہ کی مہم حضرت عمرؓ نے خاص ان کے سپرد کی تھی، انہوں نے اس کو بھی نہایت کامیابی کے ساتھ سرکیا، جب یہ قیساریہ پہنچے تو رومی کماندار" اینی" سامنے آیا، دونوں میں سخت معرکہ ہوا، امیر معاویہؓ نے اسے پسپا کردیا اور رومی شکست کھا کر شہر میں داخل ہوگئے،معاویہؓ نے قیسا ریہ کا محاصرہ کرلیا، رومی برابر نکل کے مقابلہ کرتے تھے،مگر ہر مرتبہ شکست کھا کر شہر میں لوٹ جاتے تھے،ایک دن آخری جنگ کے لئے بڑے جوش وخروش سے نکلے اور ایک خونریز جنگ کے بعد بہت فاش شکست کھائی اس معرکہ میں اسی ہزار رومی کام آئے اورمیدان امیر معاویہؓ کے ہاتھ رہا۔ غرض معاویہؓ قریب قریب تمام معرکہ آرائیوں میں بہت ممتاز حیثیت سے شریک رہے ،مگر ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔ ۱۸ھ میں جب امیر معاویہؓ کے بھائی یزید کا انتقال ہوگیا، تو حضرت عمرؓ ان کی ناوقت وفات سے سخت متاثر ہوئے اوران کی جگہ معاویہؓ کو دمشق کا عامل بنایا اورایک ہزار ماہانہ تنخواہ مقرر کی(استیعاب:۱/۲۶۱) حضرت عمرؓ معاویہؓ کے اوصاف کی وجہ سے ان کی بڑی قدر فرماتے تھے اوران کے تدبیر وسیاست اورعلوئے حوصلہ کی وجہ سے ان کو کسرائے عرب کے لقب سے یاد کرتے تھے (تاریخ الخلفا سیوطی:۱۹۴) امیر معاویہؓ ۴ سال تک فاروقی عہد میں دمشق کے حکمران رہے۔