انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بعض خوفزدہ حضرات کے احوال حضوراکرمﷺکا ارشاد حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ رَأَيْتُمْ مَا رَأَيْتُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَکَيْتُمْ کَثِيرًا قَالُوا وَمَا رَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ (مسلم،باب تحریم سبق الامام برکوع اوسجود:۲/۴۱۴) (ترجمہ)مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم وہ کچھ دیکھ لو جو میں نے دیکھا ہے تو تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ فرمایا جنت اورجہنم کو دیکھا ہے۔ حضورﷺ نے جہنم سے زیادہ خطرناک منظر نہیں دیکھا (حدیث)حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ انْخَسَفَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ أُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا کَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ (بخاری،باب من صلی وقدامہ تنور اوناراو،حدیث نمبر:۴۱۳) عبد اللہ بن عباس روايت کرتے تھے (ايک مرتبہ) آفتاب میں گرہن پڑا تو رسول خداﷺنے نماز پڑھی پھر فرمايا کہ مجھے (اس وقت) دوزخ دکھائی گئی،میں نے مثل آج کے کبھی کوئی برا منظر نہيں ديکھا۔ دوزخ کو دیکھ لیں تو سب مرجائیں (حدیث) حضرت ابن عباسؓ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ لَوْ اُبْرِزَتِ النَّارُ لِلنَّاسِ مَارَءَ اھَآ اَحَدٌ اِلَّا مَاتَ (ترجمہ)اگر جہنم لوگوں کے سامنے کردی جائے تو جو بھی دیکھے گا مرجائے گا۔ جہنم کے خوف سے متعلق حضوﷺ کاارشاد (حدیث)حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نےخطبہ میں فرمایا: لا تنسوا العظيمين الجنة والنار ثم بكى حتى جرى و بلف الدموعہ جانبي لحيته ، ثم قال : والذي نفس محمد بيده ، لو تعلمون ما أعلم عن الاخرۃ لمشيتم إلى الصعيد فحثيتم على رءوسكم التراب (ابویعلی) (ترجمہ)دوعظیم چیزوں جنت اورجہنم کو نہ بھولنا پھر آپ روپڑے اورآنسو جاری ہوگئے اورانہوں نے آپ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کی دونوں جانبوں کو تر کردیا، پھر فرمایا اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں محمدﷺکی جان ہے اگر تمہیں آخرت کے متعلق اتنا علم ہوجتنا میں جانتا ہوں تو تم(خوف کے مارے) قبروں میں چلے جاؤ اوراپنے سروں پر مٹی ڈال لو ہر مجلس میں جنت اوردوزخ کا ذکر کیا جائے (حدیث) عبدالاعلی فرماتے ہیں جو قوم کسی مجلس میں بیٹھتی ہے اورجنت جہنم کا ذکر نہیں کرتی تو فرشتے کہتے ہیں تم نے دو عظیم چیزوں کو چھوڑدیا۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں خوفزدہ لوگوں کے قلوب کو جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہنے نے توڑدیا ہے۔ (اورحضرت)ابن سماک فرماتے ہیں عارفین کے قلوب کو جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہنے نے توڑڈالا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی حالت حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے بصرہ میں لوگوں سے خطاب کیا اور اپنے خطبہ میں جہنم کا ذکر کیا تو روپڑے حتی کہ ان کے آنسو منبر پر گرتے رہے بکر مزنی فرماتے ہیں اس دن لوگ بھی بہت روئے تھے۔ ایک خوفزدہ بزرگ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ایک آدمی کو اپنے سامنے اڑی ہوئی رنگت میں دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے جو مجھے نظر آرہا ہے؟اس نے کہا اے امیر المومنین انشاء اللہ یہ بیماریاں ہیں تو حضرت عمر(بن عبدالعزیز)نے دوبارہ پوچھا تو اس نے یہی جواب دیا پھر تیسری مرتبہ پوچھنے پر اس نے یہی جواب دیا پھر کہا آپ انکار ہی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ میں آپ کو بتلاؤں (تو سنیں) میں نے دنیا کا پھل چکھا تو اس کی رونق اورلذت میری آنکھوں میں حقیر ہوگئی اس کے پتھر اورسونا برابر ہوگئے اوریہ دیکھتا ہوں کہ جیسے لوگ جنت کی طرف بھیجے جارہے ہیں اورمیں جہنم کی طرف، اس وجہ سے میں رات کو جاگتا ہوں اوردن کوپیاسا چھوڑدیتا ہوں(یعنی دن میں روزہ رکھتا ہوں) لیکن میرے یہ کام اللہ کے معاف کرنے،ثواب دینے اورعذاب دینے کے مقابلہ میں بہت چھوٹے اورحقیر ہیں۔ ایک صحابیؓ نے دوزخیوں کو بھونکتے دیکھا (حدیث) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک انصاری نوجوان سے پوچھا: كيف أصبحت يا حارثة ؟ قال : أصبحتُ مؤمناً حقاً ، قال : انظر ما تقولُ ، فإنَّ لكلِّ قولٍ حقيقةً ، قال :يا رسول الله ، عزفَتْ نفسي عن الدُّنيا ، فأسهرتُ ليلي ، وأظمأتُ نهاري ، وكأنِّي أنظرُ إلى عرشِ ربِّي بارزاً ، وكأنِّي أنظرُ إلى أهلِ الجنَّةِ في الجَنَّةِ كيف يتزاورونَ فيها ، وكأنِّي أنظرُ إلى أهلِ النَّارِ كيفَ يتعاوَوْنَ فيهاقال :أبصرتَ فالزمْ ، عبدٌ نوَّرَ اللہ الإيمانَ في قلبه (جامع العلوم والحکم) (ترجمہ)اے حارثہ تونے صبح کیسے کی؟ عرض کیا اللہ کے ساتھ حقیقی ایمان کی حالت میں صبح کی ہے،تو حضورﷺ نے فرمایا دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے کہا اے رسول اللہ میں نے اپنے نفس کو دنیا سے بے رغبت کردیا ہے رات کو جاگتا ہوں اوردن کو پیاسا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کے سامنے ہوں اور گویا کہ دیکھ رہا ہوں جنتی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کررہے ہیں اورجہنمی ایک دوسرے کو بھونک رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تو نے (عالم آخرت کا) مشاہدہ کرلیا ہے اس حالت کو لازم پکڑ، (پھر دوسروں کو مخاطب کرکے فرمایا) یہ اللہ کا بندہ ہے اللہ نے اس کے دل میں ایمان کو روشن کردیا ہے۔ حضرت یحییٰؑ کی طرف وحی اورجہنم علی بن ابی الحرفرماتے ہیں اللہ تعالی نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یحییٰ مجھے میری عزت کی قسم اگر تو جنت الفردوس میں ایک دفعہ جھانک لے تو اس کے شوق میں تیرا جسم لاغر ہوجائے اورروح پرواز کرجائے اور اگر ایک دفعہ جہنم میں جھانک لے تو آنسوؤں کے بعد پیپ بہا کر روئے اورٹاٹ کے بعد لوہے کو اپنا لباس بنالے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حالت ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز خاموش بیٹھے تھے اوران کے شاگرد احادیث بیان کررہے تھے تو انہوں نے کہا اے امیر المؤمنین آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ کیوں نہیں گفتگو فرماتے؟ فرمایا میں جنتیوں کے متعلق متفکر تھا کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے اوردوزخیوں کے متعلق کہ وہ کس طرح ایک دوسرے سے چیخ چیخ کر فریادکریں گے پھر آپ ؒ روپڑے۔ (ابن ابی الدنیا) آخرت کا مشاہدہ حضرت مغیث الاسودؒ فرمایا کرتے تھے ہر روز اپنی فکر میں قبروں کی زیارت کرو اپنی عقلوں کے ساتھ ہر روز جنت کی نعمتوں کا خیال کرو،اپنے دلوں کے ساتھ میدان قیامت کا مشاہدہ کرو، اپنی بے چینیوں کے ساتھ جنت اورجہنم کی طرف فریقین(مسلمان اورکفار) کے انجام کی طرف نظر رکھو،اپنے قلوب اوراجسام کو جہنم کے ذکر،اس کے گرزوں اورطبقات سے آگاہ رکھو۔ رونے کے ذرائع حضرت صالح المریؒ فرماتے ہیں رونے کے کئی ذریعے ہیں پہلا ذریعہ گناہوں میں فکر کرنا ہے اگر دل اس طرف متوجہ ہوجائیں تو بہتر ورنہ ان کو میدان حشر اوراس کی سختیوں اورہولناکیوں کی طرف متوجہ کرو اگر اس سے بھی متوجہ نہ ہوں تو ان کو آگ کے پاٹوں میں پسنے پر پیش کرو، اس گفتگو کے بعد چیخ ماری اوربے ہوش ہوگئے اورلوگ مسجد کے چاروں کونوں سے چیخ و پکار کرنے لگے۔ مالک بن دینار اورخوف جہنم حضرت ابو سلیمان دارانیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینارؒ رات کے وقت اپنے شاگردوں کو گھر میں چھوڑ کر مکان کے صحن میں نکل گئے صبح تک اسی جگہ کھڑے رہے،صبح کو انہیں بتایا کہ میں گھر کے صحن میں تھا میرے دل میں دوزخیوں کا حال غالب آگیا پس (میں نے یہ منظر دیکھا کہ) وہ ساری رات ہتھکڑیوں اورزنجیروں میں جکڑ ے ہوئے صبح تک میرے سامنے پیش ہوتے رہے۔ خوفزدہ حضرات اورآیات جہنم حضرت سعید جرمیؒ خوفزدہ لوگون کی حالت یوں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ کسی ایسی آیت سے گذرتے ہیں جس میں جہنم کا ذکر ہوتو گھبراہٹ سے چیخ و پکار کرتے ہیں گویا جہنم کی خطرناک آواز ان کے کانوں میں پیوست ہوگئی ہے آخرت ان کی آنکھوں کے سامنے گاڑدی گئی ہے۔ بعض اولیاء اورمشاہد دوزخ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جنت میں جنتیوں کا ہمیشہ ہمیشہ رہنے کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو جہنم میں دوزخیوں کو عذاب میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور یہ بھی فرمایا قسم بخدا جو آدمی جہنم کی تصدیق کرتا ہے اس پر زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ ہوجاتی ہے اورمنافق کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر اس کی پشت پیچھے بھی ہو تب بھی اس کی تصدیق نہیں کرے گا یہاں تک کہ آگ اس پر پلٹ دی جائے۔ بنی اسرائیل کا عابد اوردوزخ کی مثال حضرت وھب بن منبہؒ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو دھوپ میں نماز پڑھتا تھا حتی کہ کالا سیاہ ہوگیا اوررنگ بدل گیا اس کے قریب سے ایک انسان کا گذر ہوا تو اس نے کہا یہ ایسا ہے کہ گویا آگ سےجلادیا گیا ہے حضرت وھب بن منبہ فرماتے ہیں اس کی یہ حالت دوزخ کی یاد کی وجہ سے تھی اگر اسے دیکھ لیتا تو کیا کیفیت ہوتی؟ انسان دنیا میں دوزخ سے بچنے کا انتظام کرلے محدث ابن عینہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراھیم تیمی نے فرمایا میں نے اپنے نفس کو جنت کا نمونہ دیکھایا کہ میں اس کے پھل کھارہا ہوں اوراس کی کنواریوں سے بغل گیر ہورہا ہوں،پھر اپنے نفس کو جہنم کا نمونہ دیکھا یا زقوم (تھور جیسے درخت) کا پھل کھارہا ہوں،وہاں پیپ پی رہا ہوں اوراس کی زنجیریں اوربیڑیاں پہن رہا ہوں، پھر نفس کو کہا اب تو کیا چاہتا ہے؟ کہنے لگا میں دنیا میں واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ نیک عمل کرلوں،تو ابراھیم تیمی فرماتے ہیں میں نے اپنے نفس کوکہا ابھی تو اپنی یہ آرزو پوری کرنے کے جہاں میں ہے پس عمل صالح کرلے۔