انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منازل انبیاء، اولیاء اور شہداء آنحضرتﷺ کی عالیشان جنت: حدیث:جناب عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب سیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَاسَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَقُولُوا مِثْلَ مَايَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا لِي الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَاتَنْبَغِي إِلَّالِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَاهُوَفَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ۔ (مسنداحمدبن حنبل، مسند عبد الله بن عمرو رضى الله تعالى عنهما،حدیث نمبر:۶۵۶۸، شاملہ،الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:جب تم مؤذن سے (اذان) سنو توویسے ہی (کلمات) کہو جووہ کہے پھرمجھ پردرود بھیجو؛ پھرمیرے لیے اللہ تعالیٰ سے (مقام) وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ یہ جنت میں ایک درجہ ہے، جواللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے اُمید ہے کہ وہ میں ہوں گا؛ پس جس (مسلمان) نے میرے لیے (مقام) وسیلہ کی دعا کی اس کے لیے (قیامت کے دن میری) شفاعت لازم ہوگی۔ انبیاء، شہداء اور صدیقین کی جنت: حدیث:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جنۃ عدن لایدخل فیہا الاالانبیاء والشھداء والصدیقون وفیہا مالم یرہ احد ولاخطر علی قلب بشر۔ (البدورالسافرہ:۲۱۴۴) ترجمہ:جنت عدن میں صرف انبیاء کرام، شہداء عظام اور حضرات صدیقین داخل ہوں گے، اس جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کوکسی شخص نے نہیں دیکھا اور نہ کسی انسان کے وہم وگمان میں ان کا خیال گذرا ہوگا۔ جنت میں شہید کے مقامات: حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب سیددوعالم محمدرسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ الْحَكَمُ سِتَّ خِصَالٍ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ وَيَرَى قَالَ الْحَكَمُ وَيُرَى مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيمَانِ وَيُزَوَّجَ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُجَارَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنَ مِنْ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ قَالَ الْحَكَمُ يَوْمَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ وَيُوضَعَ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهُ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا وَيُزَوَّجَ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعَ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ۔ (مسنداحمدبن حنبل،حديث المقدام بن معد يكرب الكندي أبي كريمة عن النبيﷺ ،حدیث نمبر:۱۷۲۲۱، شاملہ،الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں، خون کے پہلے قطرہ کے گرتے ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، جنت میں اس کواس کا ٹھکانا کردیا جاتا ہے (قیامت کے دن) بڑی گھبراہٹ کے وقت امن میں ہوگا، اس کے تاج کا ایک موتی دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے، اس کی شادی بہتر (۷۲) حورعین سے کی جائے گی اور اس کے سترقریبی رشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاے گی (اور ان کواس کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا)۔ فائدہ:صدیق وہ حضرات ہیں جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پرکسی مخبر کی خبردینے سے ایمان لاتے ہیں؛ سوائے نورایمانی کے جس کووہ اپنے دل میں موجود پاتے ہیں اور کسی دلیل کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے، ان کے ایمان لانے میں کوئی تردد اور شک نہیں ہوتا۔ (جامع کرامات الاولیاء:۱/۸۶) صدیق کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو۔ (حضرت مولانا محمدادریس انصاریؒ) ایک تعریف یہ کی گئی صدیق وہ حضرات ہیں جومعرفت میں انبیاء علیہم السلام کے قریب ہیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کودور سے دیکھ رہا ہو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا میں کسی ایسی چیز کی عبادت نہیں کرسکتا جس کونہ دیکھا ہوں؛ پھرفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کولوگوں نے آنکھوں سے تونہیں دیکھا؛ لیکن ان کے قلوب نے حقائق ایمان کے ذریعہ دیکھ لیا ہے اس دیکھنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مراد اسی قسم کی روایات ہے کہ ان کی معرفت علمی مثل دیکھنے کے ہے۔ (تفسیرمعارف القرآن:۲/۴۷۱) شہداء کون ہیں؟: اور شہداء وہ حضرات ہیں جومقصود کودلائل وبراہین کے ذریعہ سے جانتے ہیں مشاہدہ سے نہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کوآئینہ میں قریب سے دیکھ رہا ہو (تفسیرمعارف القرآن:۲/۴۷۱) شہید کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کومقام شہادت (یعنی مشاہدہ تجلیات باری تعالیٰ) سے سرفراز فرمایا اور ان کواپنے مقربین سے بنایا ہے یہ بساط علم کی بنیاد پراللہ تعالیٰ کے ساتھ اہل حضور میں شامل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَاإِلَهَ إِلَّاهُوَوَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ (آل عمران:۱۸) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان اہلِ علم کوفرشتوں کے ساتھ بساط علم کی بنا پرجمع کیا ہے پس یہ حضرات بارگاہِ الہٰی سے توحید کی حقیقت اور عنایت ازلی کے وارث ہوئے ہیں ان کی شان عجیب اور امرانوکھا ہوتا ہے، یہ وہ شہداء ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عام کرکے ذکر کیا ہے یہ حضرات اللہ تعالیٰ کوجاننے والے ہیں اور اس علم کے بعد ایمان لاتے ہیں جواللہ تعایٰ نے (اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے) نازل فرمایا ہے اور صدیق نور میں شہید سے زیادہ تمام ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا علم سے ہوتا ہے، ایمان سے نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک گونہ ایمان میں صدیق سے کم مرتبہ ہے اور مرتبہ علم میں صدیق سے اوپر ہے پس یہ رتبہ علم میں بڑھا ہوا ہے اور رتبہ ایمان وتصدیق میں صدیق سے کم ہے۔ (جامع کرامات الاولیاء:۱/۸۷) مذکورہ بالا حدیث کے اولین مصداق جہاد فی سبیل اللہ میں شہید ہونے والے ہیں مذکورہ بالا حضرات جن کی ہم نے اوپر تعریف لکھی ہے وہ بھی ان درجات کے مستحق ہوسکتے ہیں، واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ حدیث:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ينزل الله تعالى في الساعة الثانية من الليل إلى عدن، وهي داره التي لم ترها عين ولم يخطر على قلب بشر، وهي مسكنه ولايسكنها معه من بني آدم غير ثلاثة، النبيين والصديقين والشهداء (طبرانی۔مسند بزار۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۲۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۳۶) ترجمہ:اللہ تبارک وتعالیٰ ہررات کی دوسری گھڑی میں جنت عدن کی طرف نزول فرماتے ہیں یہ (جنت عدن) اللہ تعالیٰ کا (بنایا ہوا) ایسا گھر ہے جس کونہ توکسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے وہم وگمان میں آیا ہے، یہ اس کا مسکن ہے اور اس کے ساتھ انسانوں میں سے کوئی نہیں رہ سکتا سوائے تین قسم کے حضرات کے (۱)انبیاء علیہم السلام (۲)حضرات صدیقین (۳)شہداء۔ ایک شہید کا تین حوروں سے نکاح: محمدوراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مبارک نامی ایک حبشی تھے وہ جائز کام کیا کرتے تھے ہم ان سے کہا کرتے تھے اے مبارک! تم نکاح نہیں کروگے؟ تووہ جواب دیتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ حور سے میرا نکاح کردے؛ راوی کہتے ہیں کہ ہم ایک جہاد میں شریک ہوئے جس میں دشمن ہم پرحملہ آور ہوا اور اس میں مبارک شہید ہوئے جب ہم ان پرسے گذرے توہم نے دیکھا کہ ان کا سرالگ پڑا تھا اور دھڑ ایک طرف تھا اور وہ پیٹ کے بل گرے ہوئے تھے ان کے ہاتھ سینہ کے نیچے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے کتنی حوروں کے ساتھ تمہارا بیاہ کیا؛ انہوں نے سینہ کے نیچے سے ہاتھ نکال کرتین انگلیوں سے اشارہ کیا، یعنی تین حوروں سے۔ (روض الریاحین) حضرت خدیجہ، حضرت مریم اور آسیہ کے درجات: حدیث:حضرت فاطمہؓ نے جناب رسول کریمﷺ سے سوال کیا کہ ہماری ماں خدیجہؓ (جنت میں) کس درجہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا قصب (چمکدار موتی یاقوت کے ساتھ مزین چمکدار زبرجد) کے محل میں جس میں نہ توکوئی فضول بات ہے نہ کسی قسم کی اکتاہٹ حضرت مریم اور آسیہ کے ساتھ، حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کیا اس قصب (سرکنڈے) کے محل میں؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ در، لؤلؤ اور یاقوت کے جڑاؤ والے محل میں ہے۔ (البدورالسافرہ:۲۱۴۵، بحوالہ طبرانی۔ مجمع الزوائد) بعض اکابراولیاء کے درجات: امام احمد بن حنبلؒ کے ایک شاگرد فرماتے ہیں جب امام احمد بن حنبلؒ نے وفات پائی تومیں نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ اکڑ کرچل رہے ہیں میں نے کہا: اے بھائی! کیسی چال ہے؟ فرمایا کہ یہ دارالسلام (جنت) میں خدام (اللہ کے برگزیدہ حضرات) کی چال ہے، میں نے کہا حق تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا:میری مغفرت فرمائی اور سونے کے جوتے پہنائے اور ارشاد ہوا کہ یہ سب اس بات کا انعام ہے جوتم نے کہا تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حادث نہیں ہے اور حکم ہوا کہ جہاں چاہو چلو پھرو؛ میں جنت میں داخل ہوا تودیکھتا ہوں کہ سفیان ثوری کے دوسبزپرہیں اور ایک درخت سے دوسرے درخت پراڑتے پھرتے ہیں اور یہ آیت تلاوت کرتے ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (الزمر:۷۴) یعنی حمدوشکر ہے اس اللہ عزوجل کا جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا وفا کیا اور ہمیں جنت کی زمین کا وارث بنایا ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں داخل ہوتے ہیں یہ نیک عمل کرنے والوں کی بڑی اچھی جزا ہے، میں نے پوچھا کہ عبدالواحد وراق رحمہ اللہ کی کیا خبر ہے، فرمایا میں نے انہیں دریائے نور میں کشتی نور پرسوار ہوکر حق تعالیٰ کی زیارت کرتے چھوڑا ہے، میں نے کہا حضرت بشربن حارث کا کیا حال ہے، کہنے لگے واہ واہ ان کے مثل کون ہوسکتا ہے، میں نے انہیں حق تعالیٰ کی طرف دیکھا کہ حق تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے تھے کہ اے شخص! تونہیں جانتا کہ تیرا کیا مرتبہ ہے اور اے وہ شخص! جونہ پیتا تھا اب پی لے اور اے وہ شخص! جونہیں کھاتا تھا اب سیر ہولے۔ (روض الریاحین) صرف اللہ کا دیدار کرنے سے ہوش آئے گا: بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ میں نے حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ گویا عرش کے نیچے ہیں اور حق سبحانہ وتعالیٰ ملائکہ سے فرمارہے ہیں یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا آپ خوب جانتے ہیں، اے پروردگار! فرمایا یہ معروف کرخی ہیں جومیری محبت کے نشہ میں بے ہوش تھے اور میرے دیدار کے بغیر انہیں ہوش نہیں آئے گا۔ (روض الریاحین) نور کی کرسی اور موتیوں کی بارش: امام ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کووفات کے بعد خواب میں دیکھا اور پوچھا: اے ابوعبداللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ فرمایا مجھے نور کی کرسی پربٹھا کرمجھ پرچمکتے ہوئے تازہ موتی نثار کئے۔ (روض الریاحین) نورانی لباس اور تاج: ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ ابواسحاق ابراہیم ابن علی ابن یوسف شیرازی رحمہ اللہ کووفات کے بعد خواب میں دیکھا کہ نہایت سفید لباس پہنے اور تاج اوڑھے ہوئے تھے، میں نے پوچھا حضرت یہ سفید لباس کیسا ہے؟ کہا یہ عبادت کی بزرگی ہے، میں نے کہا اور تاج؟ کہ وہ علم کی عزت ہے۔ (روض الریاحین) آدھی جنت کا وارث: بعض بزرگوں سے روایت ہے کہ انہوں نے بشربن حارث کوان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور سوال کیا کہ حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا اللہ نے میری مغفرت کی اور آدھی جنت میرے لیے حلال کردی اور ارشاد فرمایا کہ تودنیا میں کھاتا پیتا نہ تھا اب خوب کھا پی لے اور فرمایا:اے بشر! میں نے اس قدر تیری عزت وحرمت لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی تھی کہ اگراس کے شکریہ میں توانگاروں پرسجدہ کرے توبھی اس کا حق ادا نہ کرسکے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میں نے تمہاری روح قبض کی اس وقت دنیا میں تم سے زیادہ میرا کوئی پیارا نہ تھا (امام یافعی مؤلف روض الریاحین فرماتے ہیں کہ اس سے حضرت خضر علیہ السلام) کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ بشر نے اپنا مثل نہیں چھوڑا۔