انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دولتِ ملاحدۂ اَلَموت علاقہ قبستان میں الموت وقزوین وغیرہ کے قلعے حسن بن صباح نے اپنے قبضہ میں لے کر ایک سلطنت کی بنیاد دولتِ سلجوقیہ کے عین عالمِ شباب میں قائم کی تھی، حسن بن صباح اوراس سلطنت ملاحدہ کا حال بالتفصیل پہلے کسی باب میں بیان ہوچکا ہے،اس جگہ بعض اورضروری باتیں جو پہلے بیان میں رہ گئی تھیں اضافہ کی جاتی ہیں تاکہ تاریخ اسلام کا یہ سلسلہ بیان تکمیل کو پہنچ جائے،حسن بن صباح کی نسبت تو بہت سی باتیں مؤرخین نے بیان کی ہیں،لیکن اُس کے قوی الجسم اورمضبوط ہونے کا حال اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ اُس کے دو بیٹوں نے کسی کام میں اُس کی نافرمانی کی تو حسن بن صباح نے ناراض ہوکر دونوں کے صرف ایک ایک طمانچہ ماراتو طمانچہ کی اس ضرب سے دونوں مرگئے۔ ایک مرتبہ حسن بن صباح کو سلجوقیوں کی ھملہ آوری اورمحاصرہ کے وقت اپنے بیوی بچوں کو ایک دوسرے قلعے میں احتیاطاً بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو اُس نے اُس قلعہ کے حاکم کو تاکید کردی کہ میری بیوی خود ہی سوت کات کر اپنے خورد ونوش کے لئے سامان فراہم کرے گی، تم کو اس کی کوئی مہمان نوازی نہیں کرنی چاہئے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن صباح نے صرف خود ہی سادہ زندگی بسر کرتا تھا؛بلکہ وہ اپنے اہل وعیال کو بھی راھت طلبی سے دور ومہجور رکھنا چاہتا تھا۔ حسن بن صباح کی وفات کے بعد کیا بزرگ اُمید الموت میں تخت نشین ہوا،سلطان محمد سلجوقی اورکیا بزرگ اُمید کے درمیان محمد سلجوقی کی وفات تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا،محمد سلجوقی کی وفات کے بعد کیا بزرگ امید نے سلجوقیوں کے کئی قلعوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا اورگیلان کو خوب لوٹا۔ کیا بزرگ اُمید کے بعداُس کا بیٹا محمد نامی تخت نشین ہوا،اس کے عہد حکومت میں فدائیوں نے جابجا بادشاہوں اوربڑے آدمیوں کو قتل کرنا شروع کیا،جب قتل کی وارداتیں کثرت سے وقوع پذیر ہوئیں تو ایران کے لوگوں نے سلطان سنجر سلجوقی کی خدمت میں فریاد کی اور علماء نے ان فدائیوں کے خلاف قتل کے فتوے دئیے مگر سلطان سنجر نے ایلیچی الموت میں بھیجے کہ وہ ان لوگوں کے اعمال وعقائد کی نسبت صحیح حالات معلوم کرکے آئیں؛چنانچہ مجلس مناظرہ منعقد ہوئی اوران ملاحدہ نے اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرنے کی خوب کوششیں کیں،آخریہ افہام وتفہیم بلا نتیجہ رہی اورسلطان سنجر نے ان ملاحدہ کے قتل عام کی نسبت حکم دینے میں تامل اوراحتیاط کوہی ضروری خیال کیا۔ تین سال کے بعد محمد بن کیا بزرگ اُمید فوت ہوا،اُس کی جگہ حسن بن محمد تخت نشین ہوا،اس نے اپنے فرقہ میں دہریت اوربے دینی کو بہت ترقی دی ۵۶۱ھ میں جب یہ فوت ہوا تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا علاؤ الدین محمد تخت نشین ہوا، اس زمانے میں امام فخر الدین رازی نے آذر بائیجان سے رے میں آکر سلسلۂ درس جاری کیا وہ اپنے وعظ ودرس میں فرقہ ملاحدہ کے خلاف اکثر فرمایا کرتے تھے تاکہ لوگ اُن کی طرف یعنی فدائیوں کی طرف مائل نہ ہوں،فدائیوں نے رے میں پہنچ کر امام فخر الدین رازی کو قتل کی دھمکیاں دیں اوراُن کو متنبہ کیا کہ اگر تم ہمارے خلاف باتیں بیان کرنے سے باز نہ آؤ گے تو قتل کردیئے جاؤ گے،اس کے بعد امام موصوف رے سے روانہ ہوکر غور میں غیاث الدین غوری اوراُس کے بھائی شہاب الدین غوری کے پاس چلے آئے اور سلطان شہاب الدین کے ساتھ ہندوستان کے سفروں میں بھی شامل رہے،؛چنانچہ سلطان شہاب الدین غوری کی فوج میں آپ بطور امام مامور تھے یعنی نمازوں کی امامت آپ ہی فرماتے تھے، اسی سلسلہ میں سلطان شہاب الدین کی شہادت اور سلطان شہاب الدین کے ساتھ ہندوستان کے سفروں میں بھی شامل رہے؛چنانچہ سلطان شہاب الدین غوری کی فوج میں آپ بطور امام مامور تھے یعنی نمازو ں کی امامت آپ ہی فرماتے تھے،اسی سلسلہ میں سلطان شہاب الدین کی شہادت فدائیوں کے ہاتھ سے ۶۰۲ ھ میں ہوئی جس کے بعد امام فخر الدین رازی خوارزم شاہ کے پاس چلے ۔ علاء الدین محمد کے بعد اُس کا بیٹا جلال الدین حسن الموت میں تخت نشین ہوا، اُس نے باپ اور دادا کے عقائد سے توبہ کی اوراپنی اس توبہ کا حال تمام سلاطین اسلام کے پاس لکھ کر بھیجا؛چنانچہ یہ عالمِ اسلام میں جلال الدین حسن نو مسلم کے نام سے مشہور ہوا،خلیفہ ناصر عباسی بھی جلال الدین سے بہت خوش ہوا،؛چنانچہ جب جلال الدین حسن کی ماں حج کرنے کے لئے خانہ کعبہ میں گئی تو خلیفہ کے حکم سے سلطان محمد خوارزم شاہ کا رایت جلال الدین حسن کی ماں کے رایت سے پیچھے رکھا گیا اس طرح خلیفہ نے جلال الدین حسن کی ہمت افزائی کی مگر سلطان محمد خوارزم شاہ اس بات سے بے حد ناخوش ہوا اوراسی کا نتیجہ تھا کہ خوارزم شاہ نے خلیفہ بغداد کے خلاف مہم تیار کی جلال الدین حسن کی وفات کے بعد اُس کا نوسالہ بیٹا علاؤ الدین محمد تخت نشین ہوا؛چونکہ یہ لڑکا تھا،اس کے وقت میں سلطنت کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہوئے اورمذہبی معاملات میں بھی تمسخر انگیز باتوں کا اظہار ہونے لگا،نصیر الدین طوسی بھی اسی کے عہد میں تھا،۶۵۳ھ میں اُس کا انتقال ہوا، اوراُس کا بیٹا رکن الدین خورشاہ تخت نشین ہوا،ہلاکوخان نے حملہ کرکے رکن الدین خورشاہ کو گرفتار اوراس کے قلعوں کو مسمار کردیا، اس طرح اس خاندان کا خاتمہ ہوگیا، کہا جاتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں سرآغا خان جو ممبئی وغیرہ کی طرف بوہروں کی قوم کے پیر سمجھے جاتے ہیں اسی خاندان کی یاد گار ہیں۔