انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متفرق سنہری اقوال ۱۔تین شخص تین صورتوں میں پہچانے جاتے ہیں. (۱)سلیم الطبع انسان غصے کے وقت. (۲)بہادر جنگ کے وقت. (۳)بھائی جب کہ ضرورت پڑجائے۔ (حضرت لقمان ؒ ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۳۷) ۲۔اگر میں کسی کی غیبت کرتا،تو اپنے والدین کی کرتا ؛کیونکہ وہ میری نیکیوں کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ (عبداللہ بن المبارکؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۱۷) ۳۔تواضع یہ ہے کہ تو حق بات کو قبول کرے،خواہ کہنے والا کوئی بھی ہو۔ (ابن عطاءؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۰۳) ۴۔جب انسان ضروری بات یا ایسی بات کہہ رہا ہو، جس کے کہنے کے سوا کوئی اورچارہ نہیں تو وہ خاموش ہی خیال کیا جائے گا۔ (ابوبکر فارسیؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۹) ۵۔زہد کی نشانی یہ ہے کہ اپنی ملکیت کی چیزوں کو ہاتھ سے نکال کر انسان راحت محسوس کرے۔ (ابن خفیفؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۲) ۶۔مفقود چیز کی امید کو ترک کرنے اور موجود چیز کے ساتھ استغفار کرنے کا نام قناعت ہے۔ (ابن خفیف ؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۲) ۷۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں سے دنیا کو سلب کر رکھا ہے اوراصفیاء سے اسے محفوظ کر رکھا ہے اور اپنے دوستوں کے دلوں سے دنیا کو نکال دیا ہے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا دینے پر راضی نہیں۔ (سری سقطی ؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۵۹) ۸۔جو شخص لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے آراستہ کرکے دکھائے جو درحقیقت اس میں نہیں پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی نگاہ سے گرجاتا ہے۔ (سری سطقیؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۹۶) ۹۔((من تقرربالعلم لم توحشہ الخلوۃ ومن تسلیّٰ بالکتب لم یفتہ سلوۃ، ومن آنسہ قراء ۃ القرآن لم یوحشہ مفارقۃ الأخوان)) "جو علم کو لے کر تنہائی اختیار کرے گا،خلوت سے اس کو وحشت نہیں ہوگی،جو کتابوں کو اپنے لئے سامان تسلی بنادے تو وہ تسلی پائے گا اورجس کو قرآن کی تلاوت سے انس ہوجائے تو بھائیوں اوردوستوں کی جدائی سے اس کو کوئی غم نہ ہوگا" (ابوالحسن علی بن محمد ؒ،أدب الدنیا والدین،ص:۹۲) ۱۔ایسا وعدہ ہرگز نہ کیجئے جس کے پورا کرنے کا آپ کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہو۔ ۲۔اگر اترنا مشکل ہے تو آسان ترین بلندی پر بھی چڑھنے کی کوشش نہ کیجئے۔ ۳۔ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے آپ ہمیشہ ہر چیز کے انجام پر نظر رکھیں۔ ۴۔تمام امور ناگہانی آفات سے خالی نہیں،لہذا پھونک پھونک کر قدم رکھیں۔ (نفحۃ العرب،ص:۱۳۲) ۱۱۔آدمی کو ان تین الفاظ کے استعمال سے بچنا چاہئے: ۱۔میں ۲۔میرا ۳۔میرےپاس کیونکہ یہی تین لفظ ہیں جن کی وجہ سے شیطان ،فرعون اورقارون تباہ ہوئے۔ شیطان نے کہا تھا: "أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ" (الاعراف:۱۲) "میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اورآدم کو مٹی سے" فرعون نے کہا تھا: "أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ" (الزخرف:۵۱) "کیا ملک مصر میرا نہیں ہے" اورقارون کا کہنا یہ تھا: "إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي" (القصص:۷۸) "میرے پاس جو کچھ ہے وہ میرے علم کی بنیاد پر مجھے ملا ہے" (ابن القیم الجوزیۃؒ ، زاد المعاد) ۱۲۔((جزاء المعصیۃ الوھن فی العبادۃ والضیق فی المعیشۃ والتعسر فی اللذۃ)) "گناہ کی سزایہ ہے کہ عبادت میں سستی ہونے لگتی ہے اورمعیشت تنگ ہوجاتی ہے اورلذت میں تنگی پیدا ہونے لگتی ہے" کسی نے پوچھا کہ لذت میں تنگی کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ((لا یصادف لذۃ حلالا الاجاء من ینغصہ ایاھا)) "جب کوئی حلال لذت میسر آتی ہے تو کوئی نہ کوئی سبب ایسا پیش آجاتا ہے جو اس لذت کو کرکرا کردیتا ہے" (ابن خیرۃ ؒ،تفسیر ابن کثیر، سورۃ صبا:۸/۲۰) ۱۳۔حضرت بصیرحمصیؒ نے خلیل احمد ؒ کو بعد از وفات خواب میں دیکھا تو کہا کہ اب ہمیں بڑی مشکل ہوگئی کہ علمی مشکلات کا حل کس سے حاصل کریں،آپ جیسا کوئی عالم نہیں ملتا،انہوں نے فرمایا: "بھائی مشکلات کو تم ہی حل کرو گے,پہلے یہ تو پوچھو کہ ہم جن تحقیقات علمیہ کے حامل اوران پر نازاں تھے ان کا کیا حشر ہوا، ہمیں تو صرف یہ کلمہ کام آیا"سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ" باقی تحقیقات کی پوچھ ہی نہیں ہوئی" (ثمرات الأوراق،ص:۲۳) ۱۳۔((وھذہ سنۃ اللہ فی الخلق أن أھل الخلق فی جنب أھل الباطل قلیل لقولہ تعالیٰ وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین وقولہ وقلیل من عبادی الشکور)) "اللہ تعالی کی اپنی مخلوق کے بارے میں سنت ہے کہ اہل حق ہمیشہ اہل باطل کے مقابلہ میں تعداد میں کم رہتے ہیں، حق تعالیٰ شانہ کا ارشادہے اوراکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں اگرچہ آپ اس پر حریص ہوں اورارشاد ہے اورمیرے بندوں میں شکر گزار لوگ بہت کم ہیں" (علامہ شاطبیؒ ،کتاب الاعتصام:۱/۱۱) ۱۴۔زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا دستور یہ تھا کہ ان چیزوں کا اتباع کرتے تھے جن کو ان کی عقلیں مستحسن سمجھتی تھی،پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو آپ نے ان کو اتباع شریعت کا ارشاد فرمایا،پس عقل صحیح وسلیم وہی ہے جو محسنات شرعیہ کو اچھا اورمکروہات شرعیہ کو ناپسند سمجھے۔ (حضرت ابو عمرزجاجیؒ،ثمرات الاوراق،ص:۷۳) ۱۵۔اسلام کا زوال چار چیزوں سے ہے: ۱۔ایک یہ کہ لوگ علم پر عمل نہ کریں ۲۔علم کے خلاف عمل کریں ۳۔جس چیز کا علم ہو اس کو حاصل نہ کریں ۴۔لوگوں کو علم حاصل کرنے سے روکیں (محمد بن فضل ؒ،ثمرات الاوراق،ص:۷۹،کتاب الاعتصام:۱/۱۱۱) ۱۶۔لوگوں سے انقباض وترش روئی ان کی عداوت کا سبب بن جاتی ہے اور ان سے انبساط وخلط ملط برے ہم نشینوں کو جمع کردیتی ہے اس لئے انسان کو چاہئے کہ انقباض وانبساط کے درمیان راستہ اختیار کرے۔ (حضرت اکیم بن صفیؒ،تنبیہ الممغترین للشعرانی،ص:۸۱) ۱۷۔جس شخص میں تین خصلتیں موجود ہوں وہ اس کا مستحق ہے کہ لوگوں کو وعظ وتعلیم کرے اورجس میں یہ نہ ہوں اس کو تعلیم ووعظ چھوڑدینا چاہئے وہ تین خصلتیں یہ ہیں ایک یہ کہ لوگوں کو حق تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائے ؛تاکہ وہ اس کا شکر ادا کریں، دوسرے یہ کہ ان کو ان کے گناہ یاد دلائے تاکہ وہ توبہ کرے، تیسرے یہ کہ ان کو شیطان کی عداوت پر متنبہ کرے تاکہ وہ اس کے کید سے محفوظ رہیں۔ (حضرت شداد بن حکیمؒ، تنبیہ المغترین،ص؛۱۰) ۱۸۔علماء کی مثال ایسی ہے جیسے نمک کہ جب کوئی چیز خراب ہونے لگے تو نمک اس کی اصلاح کردیتا ہے؛ لیکن اگر نمک خود ہی خراب ہوجائے (مثلاً زیادہ ہوجائے) تو اس کی اصلاح کسی چیز سے نہیں ہوتی۔ (حضرت قتادہ ؒ،جامع العلم الابن عبدالبر،ص:۸۷) ۱۹۔ہرم بن حیان ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت اویس قرنی ؒ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے،آپ نے فرمایا: "جب سوؤ تو موت کو اپنا تکیہ بناؤ اوراسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو، جاگو تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ وہ تمہارے قلب اورنیت کودرست فرمادے،اس لئے کہ ان دونوں کا صحیح حالت پر رہنا نہایت سخت دشوار ہے کیونکہ بسا اوقات قلب ونیت شروع میں صحیح ہوتے ہیں اور دفعۃ بدل جاتے ہیں یا شروع میں صحیح نہیں ہوتے پھر صحیح ہوجاتے ہیں اورگناہ کے چھوٹےہونے پر کبھی نظر نہ کرو؛بلکہ اس ذات کی بڑائی پر نظر کرو،جس کی تم نافرمانی کررہے ہو" (صفوۃ الصفوۃ:۳/۲۹) ۲۰۔دین کے معاملہ میں جھگڑا کرنے سے بچو ؛کیونکہ وہ قلب کو ذکر اللہ سے غافل کردیتا ہے اورنفاق پیدا کرتا ہے۔ (جعفر بن محمدؒ،ثمرات الاوراق،ص:۲۱۵) ۲۱۔مصنفین اہل حق اوراہل باطل میں یہ فرق ہے کہ اہل حق جس باب میں تحریر کرتے ہیں اس باب کی متعلقہ روایات سب لکھتے ہیں،خواہ وہ ان کے مذہب کے موافق ہوں یا مخالف اور اہل باطل صرف ان روایات کا انتخاب کرتےہیں جو ان کے مذہب ورائے کے مطابق ہوں۔ (حضرت وکیع ؒ،سنن دارقطنی،کتاب الطہارۃ) ۲۲۔چار چیزیں انسان کی خوش بختی کی علامت ہیں: ۱۔اس کی بیوی اس کے مزاج کے موافق ہو۔ ۲۔اس کی اولاد فرماں بردار ہو۔ ۳۔اس کے دوست احباب نیک ہوں۔ ۴۔اس کا روزگار اس کے وطن میں ہو۔ (ابو حاتم ؒ،روضۃ العقلاء،ص:۸۲) ۲۳۔عقل کا کام رہنمائی کرنا، حکمت کا کام اشارہ کرنا اورمعرفت کا کام گواہی دینا ہے، عقل رہنمائی کرتی ہے،حکمت مشیر ہوتی ہے اورمعرفت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عبادات کی پاکیز گی ،توحید کی پاکیز گی وصفائی کے بغیر ممکن نہیں۔ (ابو طیب مراغیؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲) ۲۴۔عقلمندوہ شخص ہے جو دنیاوی امور کی تدبیر،قناعت اورلیت ولعل کرنے سے کرے اورآخرت کے امور کی تدبیر حرص اورجلد بازی سے کرے اوردین کے معاملات کی تدبیر علم اورکوشش سے کرے۔ (ابوطیب مراغی ؒ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۲۱) ۲۵۔حق جل جلالہ نے دلوں کا مشاہدہ کیا تو اللہ کی ذات کی طرف سب سے زیادہ مشتاق دل حضورﷺ کے دل کو پایا تو انہیں معراج میں بھی اپنے دیدار اورگفتگو کا اعزاز بخشا۔ (ابوالحسن نوریؒ، الرسالۃ القشیریۃ،ص:۵) ۲۶۔جو کوئی دنیا کی طرف ارادت مندی اورمحبت سے دیکھتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے دل سے نور یقین اورزہد نکال دیتے ہیں۔ ۲۷۔سب سے بہتر رونا یہ ہے کہ بندہ ان اوقات پر روئے جن میں اس نے (شریعت سے)موافقت نہیں کی،یعنی شریعت کے مطابق عمل نہیں کیا۔ ۲۸۔اللہ نے کسی بندہ کو غفلت اورسنگدلی سےبڑھ کر سخت چیز میں مبتلا نہیں کیا۔ (حضرت احمد بن ابی الحواریؒ (م:۲۳۰ء)،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۸) ۲۹۔گناہ کفر کا پیش خیمہ ہے،جس طرح بخار موت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ۳۰۔ظاہری آداب کا اچھا ہونا باطنی آداب کے اچھے ہونے کی علامت ہے۔ ۳۱۔جوانمردی یہی ہے کہ لوگوں سے انصاف کرو مگر ان سے انصاف کا مطالبہ نہ کرو۔ (ابوحفص عمر الحدادؒ(م:۲۶۰ھ)،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۸) ۳۲۔علم آگے سے کھنچتا ہے اورخوف پیچھے سے ہانکتا ہے اورنفس ان دونوں کے درمیان اکڑ جاتا ہے،یہ نفس سرکش ہے دھوکہ باز ہے اورفریب کار ہے،لہذا اس سے بچو اور علم کی سیاست کے ذریعہ سے اس کا خیال رکھو اورخوف کی دھمکی کے ذریعے اسے ہانکو،تب جاکر تمہاری مراد پوری ہوگی۔ (شیخ عمر بن عثمان مکیؒ (م:۲۹۱ھ)،الرسالۃ القشیریۃ:ص:۵۱) ۳۳۔وقت ایک پیرہن کہن سال کی تصویر ہے،اس کے بازوؤں میں پریوں کی طرح پر پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے،ایک ہاتھ میں شیشہ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کو اپنے گزرنے کا انداز دکھاتا جاتا ہے اورایک میں درانتی ہے کہ لوگ کی کشت امید یا رشتہ عمر کو کاٹتا جاتا ہے یا ظالم خون ریز ہے کہ جو دانا ہیں اسے پکڑ کر قابو میں کرلیتے ہیں لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں اس کی چوٹی آگے رکھی ہے،اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزرگیا وہ قابو میں نہیں آسکتا، ہاں جو پیش بین ہو وہ پہلے ہی سے روک لے۔ (مولانا محمد حسین آزاد،نیرنگ خیال،ص:۱۱) مشہور صوفی بزرگ علامہ ابو یعقوب السوسی کے کچھ اقوال ملاحظہ فرمائیے جنہیں الرسالۃ القشیر یۃ میں نقل کیا گیا ہے۔ ۱۔دنیا سے علیحدگی کی طاقت صرف قوی لوگوں کو ہے اور ہم جیسے لوگوں کے لئے تو لوگوں سے مل جل کر رہنا ہی مفید ہے؛کیونکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر عمل کرتے ہیں۔ (ابو یعقوب السوسی ،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۴۶) ۲۔جب اپنے اخلاص میں اخلاص کا مشاہدہ کرو تو سمجھو کہ ان کے اخلاص کو ابھی اخلاص کی ضرورت ہے۔(یعنی ابھی اس میں ریا ہے) (ابو یعقوب السوسی،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۹۰) ۳۔مسافر کو سفر میں چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: (۱)علم جو اس کی رہنمائی کرے (۲)پرہیز گاری جو اسے ہر بری بات سے روکے (۳)شوق جو اسے مطلوب تک پہنچنے پر اکسا تا رہے (۴)خلق جو اسے (ادنی درجہ کے اخلاق سے) بچا تا رہے (ابو یعقوب السوسی،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۰۲) ۴۔کسی نے یعقوب سوسی سے پوچھا کیا عارف اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورچیز پر بھی تاسف کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا اسے اللہ کے سوا کوئی اورچیز دکھائی دیتی ہے کہ وہ اس پر افسوس کرے؟ میں نے عرض کیا: پھر اسے دنیا کی اشیاء کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟ فرمایا:زوال اورفنا کی نگاہ سے۔ (ابو یعقوب السوسی،الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۳۸) علامہ عبداللہ بن خبیق کے کچھ اقوال جن میں حکمت و موعظت کا پیش بہا سامان موجود ہے،ملاحظہ فرمائیے: ۱۔صرف چار چیزیں قابل توجہ ہیں، ان کے سوا کچھ نہیں(۱)تمہاری آنکھ (۲)زبان (۳)دل (۴)خواہش نفس، اپنی آنکھوں کی طرف دیکھو کسی ایسی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ جو جائز نہ ہو، زبان کو دیکھو اس سے کوئی ایسی بات نہ کہو جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم ہو کہ تو کہہ کچھ رہا ہے اورتمہارے دل میں کچھ اورہے،دل کو دیکھو، اس میں کسی مسلمان کے خلاف کینہ وبغض نہیں ہونا چاہیے، اپنی خواہش کو دیکھو اورکسی قسم کی برائی کی خواہش مت کرو اگر م میں یہ چار خصلتیں نہیں پائی جاتیں تو سمجھ لو کہ تم بد بخت ہو،لہذا اپنے سر پر خاک ڈالو۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۰) ۲۔غم نہ کھاؤ صرف اس چیزپر غم کھاؤ جو تمہیں کل (قیامت کے دن)ضررپہنچائے اورصرف اس چیز سے خوش ہو،جو تجھے کل خوش کرے۔ ۳۔دیر تک بے ہودہ باتوں کو سنتے رہنا دل سے عبادت کی حلاوت کو زائل کردیتا ہے۔ ۴۔سب سے فائدہ مند امید وہ امید ہے جو تیرے لئے عمل کو آسان کردے۔ ۵۔سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا خوف وہ خوف ہے جو تجھے گناہوں سے رو کے اورجس کی وجہ سے توان چیزوں پر دیر تک غم کھا تا رہے جو تجھ سے چھوٹ گئی ہیں اور بقیہ عمر میں وہ تجھے فکر میں ڈالے رکھے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۱)