انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مولانا شاہ وصی اللہؒ (۱)بزرگوں کی خدمت میں آنے جانے کا مقصد نسبت مع اللہ کی تحصیل ہونا چاہئے ، چنانچہ بعض بادشاہوں نے تو اس نسبت کی تحصیل کے لئے بادشاہت تک کو ترک کردیا اور اس نسبت ِ عالیہ کو حاصل کیا ۔ (۲)بزروں کی خدمت میں آمد ورفت کے باوجود اگر دنیا کی حرص وہوس نہ چھوٹے تو سمجھ لو کہ وہ مخلص نہیں ہے ۔ ؎ ہر حریصے ناسزائے ترک ِ دنیا کے کندشیر مردے باید و دریا دلے مردانۂ (ترجمہ)یعنی حریص و نالائق بھلا دنیا کو کیسے چھوڑ سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے تو شیر مرد اور دریا دل ہونے کی ضرورت ہے ۔ (۳)دوسروں کی تبلیغ کا تو شوق ہے مگراپنی اصلاح کی فکر نہیں ہے ، اس معاملہ میں عوام پر تو شفقت ہے مگر اپنے اوپر شفقت نہیں یعنی جب اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود اپنے اوپر شفقت نہیں ہے یہ کیسی عجیب بات ہے ،العیاذ باللہ ۔ (۴)اگر لوگوں کو دکھانے کے لئے سو رکعتیں بھی پڑھوگے تا ہم تمہارا کوئی معتقد نہ ہوگا تو پھر ایسی نماز سے کیا فائدہ ؟ کیوں نہ اللہ تعالیٰ کی رضاء ہی کے لئےپڑھتےتاکہ اللہ تعالیٰ راضی ہو پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت و عقیدت ڈال دے اور تمہارا مقصد بھی حاصل ہوجائے ۔ (۵)لوگوں کا عقیدہ ہی خراب ہوگیا ہے اس لئے بزرگوں کی جگہوں کو اصلاح کے لئے نہیں سمجھتے بلکہ تعویِ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں ، اسی کا نتیجہ ہے کہ بزرگوں کے پاس آنے جانے کے باوجود اپنی اصلاح نہیں کرتے ، جہاں تھے وہیں رہتے ہیں ، مشائخ کو راضی رکھنا چاہتے ہیں مگر اللہ کو نہیں، تو پھر اس آمد ورفت سے کیا فائدہ ؟۔ (۶)قلب کی مثال پان جیسی ہے کہ ذرا سی دھوپ لگتی ہے تو وہ خشک ہوجاتا ہے ، اسی طرح قلب کے بدلتے دیر نہیں لگتی ، بعض دفعہ گناہِ صغیرہ کا قلب پر بہت برا اثر پڑتا ہے جس سے قلب کی حالت بگڑ جاتی ہے اس لئے اپنے قلب کی حفاظت کی بہت فکر رکھنی چاہئے ۔ (۷)اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی نیک عمل نہیں ہوسکتا ، پس ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اِس بات کا یقین کرلے کہ ہم سے جوبھی نیک عمل ہورہاہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ہورہا ہے لہٰذا اُسے چاہئے کہ اِس توفیق ِ الٰہی پر اللہ تعالی ٰ کا شکر ادا کرے ۔ (۸)اگر کوئی کسی شخص کو بلاوجہ برا بھلا کہے اور وہ خاموش رہے جواب نہ دے تو اس سے نفس اتنا مرتا ہے کہ جس کی حد نہیں ، اللہ تعالیٰ کو یہ صفت بہت پسند ہے اسی کو صبر کہتے ہیں جو مؤمن کی خاص صفت ہے ۔ (۹)اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بنایا جو غفلت کی جگہ ہے تو اللہ تعالیٰ ہی نے اس کے ازالہ کے لئے قرآنِ پاک کو نازل فرمایا تاکہ بندے غفلت کا شکار نہ ہوں ۔ (۱۰)تہذیب و تزکیہ کےلئےاور خواہشات و شہوات سے نجات پانے کے لئے ایک صورت یہ بھی ہے کہ جنت کا شوق دل میں پیدا کرے او دوزخ کا خوف اپنے اوپر طاری کرے ، اور سب سےزیادہ قوی چیز جو انسان کو اس کی خواہشات سے روکنے والی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے ۔ (۱۱)جو شخص گناہ کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے چھوڑدےوہ تائب ہے ،اور جو حیائے خداوندی کی وجہ سے چھوڑدےوہ منیب ہے ، اور جو اللہ تعالیٰ کے جلال و عظمت کی وجہ سے چھوڑدے وہ أوّاہ ہے ۔