انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت وکیع بن الجراح الرواسیؒ دوسری صدی ہجری میں جن ممتاز اتباع تابعین نے علم وعمل کے چراغ روشن کیے ان میں امام وکیع بن الجراح کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،اگرچہ ان کی تصانیف کی عدم شہرت اور نایابی کی بنا پر ان کی شخصیت اہل قلم کی توجہات کا مرکز نہ بن سکی؛ لیکن علم وفضل ،زہد وورع،ذہانت وفطانت اورقوت حافظہ میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے ،امام وکیع کے علوئے مرتبت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ابن مبارک،ابن معین اورابن مدینی اورامام شافعیؒ جیسے فضلاء روزگار ان ہی کے دامن تربیت کے پروردہ ہیں۔ نام ونسب وکیع نام اورابو عبدالرحمن الرواسی کنیت تھی (الطبقات الکبیر لابن سعد:۶/۲۷۵) پورا سلسلہ نسب یہ ہے،وکیع بن الجراح بن ملیح بن عدی بن الفرس بن سفیان بن الحارث بن عمر بن عبید بن رواس بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ (الطبقات الکبیر لا بن سعد:۶/۲۷۵)قبیلہ قیس عیلان کی ایک شاخ رواس کی نسبت سے رواسی کہلاتے ہیں۔ (الاعلام :۳/۱۳۶ والمستظرفہ:۳۵:وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۰) نشو ونُما امام وکیع ۱۴۹ھ میں بمقام کوفہ پیدا ہوئے (صفوۃ الصفوہ:۳/۱۰۴ والانساب للسمعانی:۶/۱ (جدید اڈیشن حیدرآباد)) مگر بغدادی نے بسند امام وکیع کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کب ہوئی؟ تو فرمایا: ولدت سنۃ ثمان وعشرین ومائۃ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۲) میری ولادت ۱۲۸ ھ میں ہوئی۔ اکثر محققین کی رائے ہے کہ آپ اصلاً کوفی تھے،مگر بعض کا خیال ہے کہ آپ کے مولد ہونے کا شرف نیشا پورکے استواء نامی ایک گاؤں کو حاصل ہے،پیشتر شواہد اور دلائل اول الذکر ہی کو مرجح قرار دیتے ہیں،ممکن ہے کوفہ میں ولادت کے بعد استواء منتقل ہوگئے ہوں۔ کان ابی علیٰ بیت المال (کتاب الانساب للسمعانی:۶/۱۸۲) میرے والدبیت المال کے نگران تھے۔ تحصیلِ علم امام وکیعؒ نے اپنے وقت کے تقریباً سبھی علمی سرچشموں سے اپنی علمی تشنگی فرو کی،ان کے زمانہ تک علم سینہ بسینہ رائج تھا،اسی بنا پر تحصیل علم میں جو مشقت اورتکلیفیں علمائے سلف نے اٹھائیں وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں ان حالات میں جب ہم امام وکیعؒ کے اساتذہ کی طویل فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے علم کی تحصیل کے لیے کتنی مشقت جھیلی ہوگی،مگر اسی سچی لگن اورجذبہ صادق نے انہیں علوئے مرتبت کے اس مقام پر فائز کیا کہ زبانِ خلق نے ان کو امام المسلمین احد ائمۃ الاسلام اورمحدث العراق کے خطابات سے نوازا۔ امام وکیعؒ کے فطری جوہر طالب علمی ہی کے زمانہ میں نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے؛چنانچہ جب وہ امام اعمش کے پاس کسب فیض کے لیے گئے ،تو انہوں نے نام دریافت کرنے کے بعد فرمایا: ما احسب الا سیکون لک نبأ (الانشاب للسمعانی:۶/۱ (طبع جدید) میرا خیال ہے کہ تمہارا مستقبل شاندار ہوگا۔ یحییٰ بن یمان امام وکیع کے عہدِ طالب علمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: نظر سفیان الی عینی وکیع فقال ترون ھذا الرواسی لایموت حتیٰ یکون لہ نبأ (تاریخ بغداد:۱۳/۱۶۹) سفیان نے امام وکیع کی آنکھوں میں دیکھ کر فرمایا تم لوگ اس رواسی کودیکھ رہے ہو،موت سے پہلے اس کی بڑی منزلت ہوجائے گی۔ اپنے شاگرد کے بارے میں استاذ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ شیوخ امام وکیع نے مختلف ملکوں کے نامور فضلاء سے فیض حاصل کیا ان میں سے نمایاں اساتذہ کے نام یہ ہیں: اسماعیل بن ابی خالد،ہشام بن عروہ،سلیمان الاعمش ،عبداللہ بن عون، ابن جریج،اوزاعی،سفیان ثوری،ایمن بن نابل، عکرمہ بن عمار، ثوبہ بن ابی صدقہ،جریر بن حازم خالد بن دینار، سلمہ بن نبیط ،عیسیٰ بن طہمان،مصعب بن سلیم، مسعربن حبیب،اُسامہ بن زید اللیثی،مسطر، حنظلہ بن ابی سفیان، علی بن صالح بن حی، زکریا بن اسحاق،زکریا بن ابی زائدہ ،سعید بن عبید، طلحہ بن یحییٰ ،عبدالحمید بن جعفر،عذرہ بن ثابت، علی بن المبارک،مالک بن مغول،ابن ابی ذئب،ابن ابی لیلیٰ، محمد بن قیس الاسدی،الوراق ،ہشام الدستوائی، ہشام بن سعد، حماد بن سلمہ، سعید بن عبدالعزیز التنوخی،سلیمان بن المغیرہ، صالح بن ابی خضرہ ، عبداللہ بن عمر العمری ،عبدالعزیز بن ابی رواد،فضیل بن مرزوق، قرۃ بن خالد، مبارک بن فضالہ ،موسیٰ بن عبیدہ الربذی،ہمام بن یحییٰ،یونس بن ابی اسحاق، ابی بلال الراسبی، یزید بن زیاد۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۲۴،۱۳۲) ایک روایت کے مطابق امام وکیع نے امام اعظم ابو حنیفہ اوران کے ارشد تلامذہ اما م ابو یوسف اورامام ابوزفر سے بھی سماعتِ حدیث کی تھی (الفوائد البیعہ:۱۲،کے تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۱)بغدادی نے بھی لکھا ہے کہ وکیع نے امام ابو حنیفہؒ سے سما ع کیا تھا ‘وکان قد سمع منہ شیئا کثیراً" (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۱) ضمیری نے بھی ان کا شمار امام اعظمؒ کے تلامذہ کے ساتھ کیا ہے۔ (الجواہر المضیئہ:۲/۲۰۹) درسِ حدیث ان جلیل القدر اساتذہ کے فیض نے ان کو آسمانِ علم کا نیر تاباں بنادیا اور ان کے فضل وکمال کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اورمختلف ملکوں کے طلبہ اس منبع علم سے فیضیاب ہونے کے لیے امڈ پڑے،امام وکیع کے حلقۂ درس سے جو فضلاء نکلے ان میں یحییٰ بن آدم،ابن معین اورابن مدینی جیسی یگانہ وقت ہستیاں شامل ہیں اور عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر بزرگ ،جنہوں نے امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ اورحمید الطویل جیسے آئمہ سے فیض حاصل کیا تھا وہ بھی وکیع سے فخریہ روایت کرتے تھے۔ امام وکیع نے اپنے شیخ سفیان ثوریؒ کی رحلت کے بعد مسند درس کو زینت دی (صفوۃ الصفوۃ:۳/۱۰۴،وتاریخ بغداد:۱۳/۴۶۸) مشہور امام جرح وتعدیل عبدالرحمن بن مہدیؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ۳۵ سال کی عمر میں درس دینا شروع کردیا تھا، لیکن ابراہیم حربی کا بیان ہے کہ:"حدث وکیع وھو ابن ثلاث وثلاثین سنۃ" یعنی وکیعؒ نے ۳۳ سال کی عمر میں درس کا آغاز کیا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتے ان کا حلقہ درس مرجع خلائق بن جاتا اوردوسرے تمام حلقہ ہائے درس ویران نظر آنے لگتے،ابو ہشام رفاعیؒ کہتے ہیں: دخلت المسجد الحرام فاذا عبیداللہ بن موسیٰ یحدث والناس حولہ کثیر فطفت اسبوعاً ثم جئت فاذا عبیداللہ قاعد وحدہ فقلت ماھذا فقال قدم التنین فاخذ ھم یعنی وکیعاً (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۲۹) ایک مرتبہ میں مسجد حرام میں گیا تو عبید اللہ بن موسیٰ کو حدیث کا درس دیتے دیکھا ان کے ارد گرد طلبہ کا ہجوم تھا،پھر ایک ہفتہ طواف کے بعد جو آکر دیکھا تو عبید اللہ تن تنہا بیٹھے ہوئے ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہوا انہوں نے کہا ایک اژدہا آگیا ہے جو پورے حلقہ کو نگل گیا،ان کی مراد امام وکیع سے تھی ۔ خطیب نے بھی اس واقعہ کو مزید تفصیل سے لکھا ہے (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۹) اس کے علاوہ بھی مسجد حرام کے کئی حلقہائے درس،امام وکیعؒ کے مکہ آجانے کے بعد ویران ہوگئے، جن کی تفصیل خطیب نے بیان کی ہے۔ تلامذہ امام و کیعؒ کے تلامذہ کی فہرست بھی بہت طویل ہے،مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں: احمد بن حنبلؒ،ابن المدینی،یحییٰ بن آدم،قتیبہ بن سعید،یحییٰ بن معین، ابو خثیمہ ،زہیر بن حرب، ابوبکر بن ابی شیبہ،احمد بن جعفر الوکیعی،عباس بن غالب الوراق،یعقوب الدورتی (الانساب السمعانی:۶/۱۸۱، وتاریخ بغداد:۱۳/۴۶۷)عبید اللہ بن ہاشم،ابراہیم بن عبداللہ القصار (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۰) احمد بن منیع،حسن بن عروہ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱/۴۱۵) اسحاق الحنظلی،محمد بن نمیر، عبداللہ الحمیدی،محمد بن سلام، یحییٰ بن جعفر ،یحییٰ بن موسیٰ، محمد بن مقاتل، ابو سعید اشبح، نصر بن علی، سعید بن ازہر، ابن ابی عمر ،علی بن حشرم (کتاب الجمع بین رجال الصحیحیں:۲/۵۴۶)یحییٰ بن یحیی نیشا پوری، محمد بن صلاح الدولابی،ابراہیم بن سعد، الجوہری۔ (تہذیب :۱۱/۱۲۵) حافظ ابن حجرؒ نے ابراہیم بن عبداللہ القصار کو امام وکیعؒ کا آخری شاگرد بتایا ہے مذکورہ بالا تلامذہ کے علاوہ امام وکیعؒ سے بعض ان مشاہیر ائمہ نے بھی روایت کی ہے جو وکیعؒ کے استاد ہیں یا شیوخ کی صف کے بزرگ ہیں جیسے امام سفیان بن عیینہ اورعبد الرحمن بن مہدی۔ فضل وکمال امام وکیعؒ کا فضل وکمال ان کے دور کے علماء میں مسلم تھا اور وہ سب ان کے کمالات کے معترف تھے۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ: مارأیت رجلا قط مثل وکیع فی العلم والحفظ والاسناد والا بواب مع خشوع وورع (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۴) میں نے علم،حفظ،اسناد اورساتھ ہی ساتھ ورع وتقویٰ میں امام وکیع بن جراح کا مثل کسی کو نہیں دیکھا۔ انہی کا دوسرا قول ہے: مارأیت عینی مثلہ قط یحفظ الحدیث جیداً ویذاکر بالفقہ فیحسن مع ورع واجتھاد (شذرات الذہب :۱/۳۵۰،وکتاب الانساب للسمعانی:۴۶۱) میری آنکھوں نے امام وکیع کا مثل نہیں دیکھا،وہ حدیث کے بڑے اچھے حافظ تھے، فقہ بھی بہترین پڑھاتے تھے،تقوی اوراجتہاد میں مختار تھے۔ ابن عمار کہتے ہیں: ماکان بالکوفۃ فی زمان وکیع افقہ ولا اعلم بالحدیث کان وکیع جھبذاً (ایضاً) وکیع کے زمانہ میں کوفہ میں ان سے بڑے فقیہ اورحدیث کو ان سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں تھا،امام وکیع عبقری وقت تھے۔ یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: کان وکیع فی زمانہ کا الاوزاعی فی زمانہ (صفوۃ الصفوۃ:۳/۱۰۲) امام وکیع کی ان کے زمانہ میں وہی حیثیت تھی جو امام اوزاعی کی ان کے وقت میں تھی۔ ابن ناصرالدین کا قول ہے: ابو سفیان (وکیع)محدث العواق ثقۃ متفق ورع امام ابو سفیان وکیع محدث عراق ثقہ اورمتقی تھے۔ ابن سعد نے انہیں ثقہ،بلند مرتبہ عالم،مامون،کثیر الحدیث اورحجۃ لکھا ہے (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۵) ان کمالات کی بنا پر وہ امام کوفہ اورمحدثِ عراق کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ذہانت اورقوتِ حافظہ مبداء فیاض نے امام صاحب کو غیر معمولی قوتِ حافظہ سے نوازا تھا،ان کی ذکاوت وفطانت کے جوہر صغر سنی ہی میں کھلنے لگے تھے،طالب علمی کے زمانہ میں انہوں نے جو حدیث کسی شیخ سے سنی تھی وہ عمر بھر ان کے حافظہ میں محفوظ رہی،ان کی اس خصوصیت پر ائمہ وقت رشک کرتے تھے،قاسم حربی بیان کرتے ہیں کہ سفیان ثوری امام وکیع کو بلا کر پوچھتے کہ رواسی سے تم نے کونسی حدیث سنی ہے، وہ پوری سند کے ساتھ اس کو بیان کردیتے کہ مجھ سے فلاں شخص نے اس طرح حدیث روایت کی ہے،راوی کا بیان ہے کہ سفیان ثوری اپنے شاگرد کی اس حاضر دماغی کو دیکھ کر مسکراتے اورتعجب وحیرت کا اظہار کرتے۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۲۸) اپنی قوتِ حافظہ کے بارے میں خود وکیع کا بیان ہے مانظرت فی کتاب منذ خمس عشرۃ سنۃ الا فی ضیفۃ یوماً فنظرت فی طرف منہ ثم اعدتہ علیٰ مکانہ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷) میں نے گذشتہ پندرہ سال کے عرصہ میں سوائے ایک دن کے کبھی کتاب کھول کر نہیں دیکھی اوراس مرتبہ میں بھی بہت سرسری طور سے دیکھا اورکتاب کو پھر اس کی جگہ رکھ دیا۔ اسی قوتِ حافظہ کا نتیجہ تھا کہ درس کے وقت کتاب سامنے نہیں رکھتے تھے؛بلکہ زبانی حدیث کا درس دیتے اور طلبہ اس کو اثنائے درس میں یا اس کے بعد قلمبند کرتے تھے، طالب علمی کے زمانہ میں بھی انہوں نے کبھی حدیثوں کو قلمبند نہیں کیا ؛بلکہ درس کے بعد آکر لکھتے تھے۔ ماکتبت عن سفیان الثوری حدیثاً قط کنت احفظہ فاذا رجعت الی المنزل کتبتہ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۵) میں نے سفیان ثوری کے درس کے وقت کبھی حدیث نہیں لکھی ؛بلکہ اس کو دماغ میں محفوظ کرلیتا پھر گھر واپس آکر لکھتا تھا۔ اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کا حافظہ تو بتکلف ہے اورامام وکیع فطری حافظ تھے (کتاب الانساب للسمعانی:۲۶۱)امام وکیع کےلڑکے کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب اورکاغذ کا ٹکڑا نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۹) امام موصوف کے نزدیک قوتِ حافظہ کا سب سے بڑا نسخہ معاصی سے اجتناب ہے،اللہ تعالیٰ ہر انسان کو حفظ وفہم کی دولت سے نواز تا ہے،مگر خبائث اورمعاصی کی کثرت اس کو کند کردیتی ہے علی بن خشرم کہتے ہیں کہ میں نے امام وکیع کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی وہ صرف اپنے حافظہ سے درس دیتے تھے، ان کی حیرت انگیز قوتِ حافظہ دیکھ کر میں نے ان سے کوئی ایسی دوا پوچھی،جس سے حافظہ اچھا ہوجائے،امام صاحب نے فرمایا: ترک المعاصی ماجربت مثلہ للحفظ (تہذیب التہذیب:۱/۱۲۹) معاصی سے اجتناب سے بڑھ کر قوت حافظہ کیلئے کوئی چیز میرے تجربہ میں نہیں آئی۔ ایک دفعہ کسی شخص نے سوء حافظہ کی شکایت کی،امام وکیعؒ نے اس کو معاصی سے اجتناب کا مشورہ دیا اورفرمایا : علم خداوند قدوس کا نور ہے،وہ کسی گنہگار اورعاصی کو عطا نہیں کیا جاتا ،درجِ ذیل اشعار میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔ شکوت الی وکیع سوء حفظی فاوصانی الی ترک المعاصی وعللہ بان العلم فضل وفضل اللہ لا یؤتی لعاصی (مرأۃ الجنان للیافعی:۱/۴۵۸) اخلاقی فضائل علمی کمالات کے ساتھ اخلاقی فضائل سے بھی آراستہ تھے،دنیاوی دولت اوروجاہت کی آپ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی اورہمیشہ اس سے دامن بچاتے رہے، خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کے سامنے منصب قضاء کی پیشکش کی ،آپ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۲ والاعلام:۳/۱۱۳۶) ایک مرتبہ محمد بن عامر مصیصی نے امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ آپ وکیع سے زیادہ محبت رکھتے ہیں یا یحییٰ بن سعید سے ؟ امام احمدؒ نے جواب دیا میں وکیع کو یحییٰ سے افضل سمجھتا ہوں،کیونکہ انہوں نے حفص بن غیاث کی طرح عہدہ قضا کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا، اوریحییٰ نے معاذ بن جبل کی طرح اپنے آپ کو اس منصب کی آزمائشوں میں مبتلا کیا۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۲۵) ان کی والدہ نے انتقال کے وقت ایک لاکھ نقد یا اتنی قیمت کی جائیداد وراثت میں چھوڑی تھی،وکیع نے کبھی اپنے حصہ کا مطالبہ نہیں کیا،گھر میں جو کھانا اورکپڑا مل جاتا اسی پر قانع وشاکر رہتے،نہ مزید کے لیے مطالبہ کرتے اورنہ اس بارے میں کوئی گفتگو ہی کرتے۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۹) ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ امام اعمش کے حلقہ درس میں آپ نے میری دوات سے روشنائی استعمال کی تھی،اس کی قیمت ادا کیجئے!راوی کا بیان ہے کہ امام موصوف نے بغیر کسی تحقیق اوربحث کے دینار کی ایک تھیلی لاکر اس شخص کو دے دی اور فرمایا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس وقت میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (ایضاً) خوف وخشیت کا یہ عالم تھا کہ ابن معین کا بیان ہے کہ میں نے وکیع کو اکثر یہ کہتے سُنا"ای یوم لنا من الموت" ہماری موت کس دن ہوگی؟ داؤد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ عالم رؤیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ولی کون لوگ ہوتے ہیں؟ارشاد فرمایاجو لوگ اپنے ہاتھ سے کسی کوضرر نہیں پہنچاتے اوربلاشبہ وکیع انہی میں سےایک ہیں۔ دولت مند ہونے کے باوجود نہایت سادہ اور معمولی زندگی بسر کرتے تھے،پھر بھی اس خوف سے لرزاں رہتے کہ کہیں خداوندِ قدوس کے یہاں اس "تعیش"کی باز پرس نہ ہو،ان کی جسمانی تروتازگی کی وجہ سے بعض لوگوں کو غلط فہمی تھی کہ وہ عیش وتنعم کی زندگی بسر کرتے ہیں،ایک مرتبہ جب وہ مکہ گئے،تو حضرت فضیل بن عیاض نے جو مشہو زاہد ہیں،انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ تو عراق کے راہب ہیں، یہ موٹا پاکیسا؟ فرمایا "ھذا فرحی بالاسلام" یعنی یہ چیز درحقیقت نعمتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے کی خوشی اور مسرت کا نتیجہ ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۱،وتہذیب التہذیب:۱۱/۱۳۰) عبادت ان کی عبادت کی کثرت،رقتِ قلب اورگریہ پر معاصر ائمہ واخیارِ وقت بھی رشک اوراس کی تمنا کرتے تھے،ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی آرزو کرتا تو وکیع کی عبادت اوررقت کی تمنا کرتا۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۸۱،شذرات الذہب:۱/۳۵۰) قاضی یحییٰ بن اکثم اورامام وکیع کا سفر و حضر میں بارہا ساتھ رہا ہے،ان کا بیان ہے کہ وکیع ہر شب میں قرآن ختم کرتے تھے (ایضاً)ایک دوسرے معاصر یحییٰ بن ایوب بیان کرتے ہیں کہ وہ رات میں ثلث قرآن پڑھنے سے قبل نہیں سوتے تھے اورپھر رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوجاتے تھے۔ (سمعانی:۱/۲۶۶وصفوۃ الصفوۃ:۳/۱۰۲) ان کے شب بیداری اورعبادت گذاری کا رنگ پورے گھر پر چڑھا ہوا تھا اور گھر کا ہر فرد حتیٰ کہ ملازم تک تہجد کے پابند تھے،ابراہیم بن وکیع فرماتے ہیں: کان ابی یصلی اللیل فلا یبقی فی دارنا احد الا صلی حتی ان جاریۃ لنا سوداء لتصلی (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۱) میرے والد جب رات میں نماز پڑھتے تھے تو ہمارے گھر میں کوئی شخص ایسا نہیں باقی رہتا تھا،جو نماز نہ پڑھتا ہو،حتیٰ کہ ہماری سیاہ فام لونڈی بھی نماز پڑھتی تھی۔ معمولات سفیان بن وکیع اپنے والد کے شب وروز کے معمولات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میرے والد صائم الدھر تھے،صبح سویرے بیدار ہوجاتے،فجر کی نماز کے بعد مجلس درس شروع ہوجاتی،دن نکلنے تک اس میں مشغول رہتے پھر گھر جاکر ظہر کی نماز تک قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرتے پھر عصر تک طلبہ کو قرآن کا درس دیتے اور پھر مسجد آکر عصر کی نماز پڑھتے اوراس سے فارغ ہوکر پھر درس قرآن شروع ہوجاتا اورشام تک مذاکرہ میں منہمک رہتے، پھر مکان تشریف لاکر افطار فرماتے،اس سے فارغ ہوکر نماز پڑھتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۱) مسلک امام وکیع اگرچہ منصبِ امامت واجتہاد پر فائز تھے؛ لیکن فتٰوےمسلک حنفیہ کے مطابق دیتے تھے،اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی طرف مائل تھے یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: کان وکیع یفتی بقول ابی حنیفۃ وکان قد سمع منہ شیئاً کثیراً (تاریخ بغداد:۱۳/۴۷۱) امام وکیع ابو حنیفہؒ کے قول کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورانہوں نے امام صاحب سے کافی سماعت بھی کی تھی۔ علالت اوروفات ۱۹۶ھ کے اواخر میں زیارت حرمین کے لیے تشریف لے گئے،حج سے فراغت کے بعد اسہال کی شکایت ہوگئی، اس لیے وطن کا قصد کیا لیکن مرض شدت اختیار کرتا گیا اور کوفہ ومکہ کے درمیانِ مقام فید میں پہنچے تھے کہ پیام اجل آگیا اور علم وفضل کا یہ پیکر اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوگیا (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۵)اس وقت ۶۸سال کی عمر تھی۔ تصنیفات متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام وکیع نے درس وتدریس کے ساتھ تالیف وتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا،امام احمد فرماتے ہیں علیکم بمصنفات وکیع (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۸وتہذیب التہذیب:۱۱/۱۲۶وتاریخ بغداد:۱۳/۴۷۶) امام ابن جوزی کا بیان ہے صنف التصانیف الکثیرۃ (صفوۃ الصفوۃ:۲/۱۶۴) انہوں نے بکثرت کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لیکن ان تصنیفات کی کوئی تصریح نہیں ملتی ہے،خیرالدین زر کلی نے لکھا ہے کہ:لہ مصنف فی الفقہ والسنن (الاعلام :۳/۱۱۳۶)لیکن صراحت کے ساتھ صرف دو کتابوں کے نام ملتے ہیں۔ (۱)مصنف ابی سفیان (المستطرف:۳۵) (وکیع بن الجراح) (۲)کتاب السنن۔ (الفہرست:۳۱۷) مگر آج ان کی کسی تصنیف کی موجودگی کا پتہ نہیں چلتا،یہی وجہ ہے کہ خلیفہ چلپی اورصاحب المعجم نے امام وکیع کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے۔