انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابی بن کعب ؓ آپؓ کاپورا نام ابی بن کعب بن قیس انصاری خزرجی تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کنیت ابوالمنذر اور فاروق اعظمؓ نے ابو الطفیل مقرر کی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توحضرت ابی بن کعبؓ آپﷺ کے سب سے پہلے کاتب مقرر ہوئے۔(الاستیعاب۲۲۱) آپ سید القراء تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے متعلق فرمایاتھا: "وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ "۔ (ترمذی،باب مناقب،حدیث نمبر:۳۷۲۳،شاملہ) اورسب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو سورۃ"لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا"پڑھ کر سناؤں، حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:کیا اللہ نے میرانام لے کر فرمایا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں یہ سن کر حضرت ابی بن کعب کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ (سنن ترمذی،باب مناقب،حدیث نمبر:۳۷۲۵) حضرت ابی بن کعبؓ کی جلالۃ ِقدر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓجیسے امام المفسرین نے آپ سے استفادہ فرمایا ؛حتی کہ حضرت معمر نے فرمایا: "عامۃ علم ابن عباس من ثلثۃ عمر وعلی وابی بن کعب"۔ (علوم القرآن:۴۶) حضرت عبداللہ بن عباس کے علوم کا اکثر حصہ تین حضرات سے ماخوذ ہے،حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ،حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ۔ علامہ سیوطی فرماتے ہے تفسیر کا ایک بڑا نسخہ ہے جو حضرت ابی بن کعب کی طرف منسوب ہے جس کی سند یہ ہے ابو جعفر الرازی عن ربیع بن انس عن ابی العالیۃ عن ابی بن کعب اور یہ سند بالکل صحیح ہے، ابن جریر اورابن ابی حاتم نے اپنی تفاسیر میں کثرت سے اس نسخہ سے روایتیں نقل کی ہیں اورحاکم نے بھی اپنی مستدرک میں اورامام احمد نے مسند احمد میں اس نسخہ سے روایتیں لی ہیں۔ (مناھل العرفان:۳۴۵) تفسیری اقوال (۱)ابوالعالیۃؒ سے مروی ہے حضرت ابی بن کعبؓ اللہ تعالی کے اس فرمان : "وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِين"۔ (الاعراف :۱۷۱) اور جب کہ آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے انہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ہم سب (اس واقعہ کے)گواہ بنتے ہیں، تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید) سے بے خبر تھے۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان سب کو جمع فرمایا پھر ان کی روحیں بنائیں پھر ان کی صورتیں بنائیں پھر ان کوگویائی عطا فرمائی ؛چنانچہ ان روحوں نے کلام کیا،پھر اللہ تعالی نے ان روحوں سے عہدومیثاق لیا اوران کو خود اپنی ذات پر گواہ بنایا، (ان سے فرمایا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ (پھر) فرمایا تو میں تم پر ساتوں آسمان اورساتوں زمینوں کو گواہ بناتا ہوں اورتم پر تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو گواہ بناتا ہوں کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم کو اس کی خبر نہ تھی ( پھر جس کا ان سے عہد و میثاق لیا تھا اس کو بیان فرمایا) جان لو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اورمیرے سوا کوئی رب نہیں تو تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میں ضرور تمہارے پاس اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تم کو میرا عہد ومیثاق یاد دلائیں گے اورتم پر اپنی کتابوں کو نازل کروں گا، تو ان روحوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارےرب ہیں ،آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا ہمارا کوئی رب نہیں ؛چنانچہ ان روحوں نے اس کا اقرار کیا پھر اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بلندی پر اٹھایا ؛تاکہ وہ ان کو دیکھ لیں تو حضرت آدم علیہ السلام نے مالدار، فقیر، خوبصورت وبدصورت سب کو دیکھا پھر فرمایا: اے میرے رب آپ نے اپنے بندوں میں برابری کیوں نہیں رکھی ،اللہ تعالی نے فرمایا میں نےچاہا کہ اس طرح میرا شکر ادا کیا جائے اورآپ نے ان روحوں میں انبیاء کی روحوں کو دیکھا کہ وہ ان میں روشن اور چراغوں کے مانند ہیں، پھر ان سے رسالت ونبوت کا مزید ایک اور عہد لیا گیا جس کا اللہ تعالی کے اس قول "وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ" میں ذکر ہے۔ (مسند احمد:۱۳۵۵) (۲)اسی طرح حضرت ابی بن کعبؓ اللہ تعالی کے اس فرمان: "إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ"الخ، کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان میں سے چھ آیتوں کا تعلق قیامت سے پہلے سے ہے کہ لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اتنے میں سورج کی روشنی چلی جائے گی اور وہ اسی حیرانی و پریشانی میں ہوں گے کہ پھر ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے، لوگ اسی سراسیمگی کے عالم میں ہوں گے کہ پھر پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر سطح زمین پر گرپڑیں گے،پھر زمین مضطرب ہوکر حرکت میں آجائے گی اوراس پر سخت زلزلے آئیں گے، ایسے خوفناک حالات میں مارے دہشت کے جنات انسانوں کی پناہ لیں گے اورانسان جنات کی پناہ لیں گیں (یعنی جنات اپنی جان بچانے کی فکر میں ویرانوں اورجنگلات سے نکل کر شہروں اورآبادیوں کا رخ کریں گے اورانسان شہروں اورآبادیوں کو چھوڑ کر اپنے جان کے تحفظ میں ویرانوں اورجنگلات کا رخ کریں گے، خوف و دہشت کے عالم میں چوپائے،پرندے اور درندے آپس میں مل جائیں گے اورایک دوسرے میں گڈمڈ ہوجائیں گے اور ۱۰ ماہ کی گابھن اونٹنیاں چھوڑدی جائیں گی (اس کو بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا؛ کیوں کہ اہل عرب اس حالت میں اونٹنی کی بہت دیکھ ریکھ کرتے تھے اوراس کی بہت حفاظت کرتے تھے ؛لیکن اس دن کی شدت کی وجہ سے اسے بھی اپنے حال پر چھوڑدیا جائے گا)" وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ" کی تفسیر میں فرمایا کہ سمندر بھی دہکتی ہوئی آگ میں بدل جائیں گے، لوگ اس حال میں ہوں گے کہ اتنے میں زمین پر ایک ایسا زبردست شگاف پڑے گا کہ جس کا اثر ساتویں زمین اور ساتویں آسمان تک ہوگا، پھر ایک آندھی چلے گی جو سب کو ختم کردے گی۔ (ابن کثیر:۶۱۰۴) (۳)نیزاس آیت: " قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ"۔ (الانعام:۶۵) آپ کہیے کہ اس پر بھی وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے نیچے سے یا تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑادے اورتم میں سے بعض کو بعض سےلڑاکر مزہ چکھا دے۔ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں یہ چار ہیں اوریہ سب کے سب عذاب ہے اوریہ سب ہرحال میں واقع ہونے والے ہیں ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺکی وفات کے ۲۵ سال بعد ہی ہوچکے کہ مسلمان گروہوں میں بٹ چکے اور اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں سے لڑاکر مزہ چکھادیا، دوباقی رہ گئے وہ بھی لامحالہ واقع ہونے والے ہیں زمین میں دھنسنا اورآسمان سے پتھر برسنا۔