انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمرؓ کا ایمان لانا حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت حضرت عمرؓ کی عمر ستائیس سال تھی، حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ ؓ کا نکاح حضرت سعیدؓ بن زید سے ہوا تھا جو اسلا م قبول کر چکے تھے، حضرت فاطمہؓ بھی اسلام قبول کر چکی تھیں؛ لیکن حضرت عمر ؓ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے ، قبیلہ کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن ہو گئے ، لبینہؓ ان کے خاندان کی کنیزتھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا ، اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ" دم لے لوں تو پھر ماروں گا" لبینہؓ کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا اس کو خوب مارتے تھے لیکن ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے دل بر داشتہ نہ کرسکے ، آخر مجبور ہو کر ( نعوذ باللہ) خود حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار حمائل کر کے سیدھے حضور ﷺ کے مکان کی طرف چلے، راستہ میں بنی زہرہ کے نعیمؓ بن عبداللہ النّحام سے ملاقات ہو ئی ، پوچھا ! کدھر کا ارادہ ہے ؟ جواب دیاکہ حضور ﷺ کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں ، انھوں نے کہا ! پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں ، فوراً پلٹے اور بہن کے گھر پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ، ان کی آوازسنتے ہی چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لئے ، بات یہ تھی کہ جب کوئی محتاج شخص مسلمان ہوتا تو حضور ﷺ اسے کسی آسودہ حال صحابی کے سپرد کر دیتے تا کہ اس کی ضروریات کی کفالت کرے، اُم انمار کے غلام حضرت خبّاب بن ارت ایمان لائے تو انہیں حضرت سعیدؓ بن زید کے سپرد کیا گیا،یہ دونوں ان ہی سے قرآن سیکھ رہے تھے۔ ( ابن اسحق ، سیرت ابن اسحق ، نقوش رسول نمبر جلد ۱۱ بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ) دروازہ کھلنے پر اندر داخل ہوئے اور پوچھا !یہ کیا آواز تھی، بولیں! کچھ نہیں، انہوں نے کہا! میں سن چکا ہوں ، تم دونوں گمراہ ہو چکے ہو، بہنوئی حضرت سعیدؓ بن زید نے کہا ! گمراہی کا دین وہ ہے جس پر تم چل رہے ہو، یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ آپے سے باہر ہو گئے اور انہیں بے تحاشہ زد و کوب کیا، آپ کی بہن فاطمہؓ بچانے آئیں تو انہیں بھی لہو لہان کر دیا، بولیں‘ عمر ! جو چاہے کر لو؛ لیکن اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا، بہن کے جسم سے جاری خون دیکھ کر حضرت عمر ؓ پر رقت طاری ہوئی، پوچھا ! وہ کیا چیز تھی جو تم لوگ پڑھ رہے تھے، بہن نے کہا ! کلام الٰہی ، حضر ت عمرؓ نے کہا ! میں بھی توذرا دیکھوں ، فرمایا ! جب تک پاک نہ ہو جاؤ ہاتھ نہیں لگا سکتے ، پوچھا ! ا س کا طریقہ ؟ فرمایا ! وضو اور غسل، حضرت عمرؓ جب غسل کر کے آئے تو بہن نے محسوس کیا کہ بھائی کا چہرہ ہی بدل گیا ہے، بہن نے ہرن کی کھال پر لکھی سورۂ طہٰ پیش کی جو وہ اور ان کے شوہر حضرت سعیدؓ ، حضرت خبّاب ؓ بن ارت کے سامنے تلاوت کر رہے تھے ،یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ بے اختیار پکار اٹھے ! کیا ہی اچھا اور بزرگ کلام ہے ، کہا ! مجھے فوراً آنحضرت ﷺ کے پاس لے چلو ،یہ سن کر حضرت خبّاب بن ارت جو کہیں چھپ گئے تھے فوراً باہر آئے اور عرض کیا ! ابھی کل کی بات ہے کہ حضورﷺ نے صفا کے دامن میں دعا مانگی تھی، خداوندا !عمربن ہشام ( ابو جہل ) اور عمربن خطاب دونوں میں سے جسے تو عزیز رکھتا ہو اسے اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب فرما، ابن عساکر کے بموجب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا کہ ابو جہل ایمان نہیں لائے گا تو آپ ﷺنے یہ دعا فرمائی " اے اللہ عمر بن خطّاب سے اسلام کو قوت دے " (محمد ادریس کاندھلوی ، سیرت احمد مصطفی بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ) یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کوہ ِ صفا کے دامن میں واقع حضرت ارقم ؓکے مکان میں قیام پذیر تھے ، حضرت عمرؓ نے اس مکان پر پہنچ کر دستک دی ، چونکہ وہ تلوار حمائل کئے ہوئے تھے اس لئے صحابہ ؓ کو تردد ہوا ، لیکن حضرت حمزہؓ نے کہا،آنے دو ! مخلصانہ آیا ہے تو بہترہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھاتو آنحضرت ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کادامن پکڑ کے فرمایا:کیوں عمر ! کس ارادے سے آیا ہے ؟ حضور ﷺ کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا ، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا، ایمان لانے کے لئے اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا، آنحضرت ﷺ بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیا ں گونج اٹھیں۔ (النساب الاشراف ، بلا ذری ، طبقات ابن سعد بحوالہ سیرت النبی شبلی نعمانی) اس کے بعد حضرت عمرؓ نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! کفّار تو لا ت و عزّیٰ کی پوجا علانیہ کریں اور ہم اللہ واحد کی عبادت چُھپ کر کریں، ایسا نہیں ہو سکتا ، اب تو بیت اللہ میں عبادت ہوگی، حضرت عمرؓ نے آواز لگائی کہ کفّار میں سے جس کسی نے مزاحمت کی اس کا سر قلم کر دیا جائے گا ، چنانچہ مسلمانوں نے حضور ﷺ کی امامت میں خانہ کعبہ میں نماز با جماعت ادا کی، حضرت عمرؓ کو ملا کر ان کی تعداد چالیس تھی ، اس موقع پر حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو " فاروق" ( حق و باطل میں حد فاصل قائم کرنے والا ) کہہ کر پکارا ،یہ ذی الحجہ کامہینہ تھا اور حضرت حمزہؓ کو ایمان لائے صرف تین دن ہوئے تھے ، (مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ ، ابن جوزی، سیرت عمر) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ اس وقت حضرت جبریلؑ نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد ! تمام اہل آسمان عمرؓ کے ایمان لانے پرمسرور اور شادماں ہیں، اسی روز سورۂ انفال کی آیت ۶۴ بھی نازل ہوئی جس میں صحابہ ؓ کو پہلی بار مومن کہہ کر پکارا گیا: " اے نبی آپﷺ کو اللہ اور آپﷺ کے مومن متبعین کافی ہیں" (سورہ ٔ انفال : ۶۴ ) حضر ت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں میں اتنی ہمت پیدا ہوگئی کہ صحنِ کعبہ میں حلقہ بنا کر بیٹھنے لگے اور بے خوف ہوکر طواف کرنے لگے ، حضرت عبداللہ ؓ بن مسعودکا قول ہے کہ حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کے بعد ہم برابر غالب آتے گئے، ان کا ایمان اسلام کی فتح، ان کی ہجرت تائید ایزدی اور ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی۔